کورونا سے جنگ :اداروں‘سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں قومی صحت پر سنجیدگی نہیں رہی آفات ،سانحات ہوں یا وبائی امراض قوم میں جذبہ بیدار کر کے قابو پایا جا سکتا ہے
(تجزیہ:سلمان غنی) ملک بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اقدامات میں بھی تیزی آ رہی ہے ۔ کورونا کے خلاف حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ مسلح افواج بھی حکومت کے شانہ بشانہ سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ خصوصاً قرنطینہ سنٹرز کے قیام کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کے بعد کسی حد تک یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اب یہ وائرس اس انداز میں نہ پھیل سکے جس انداز میں یہ چین’ایران’ اٹلی اور دیگر ممالک میں ہزاروں افراد کو نگل گیا ۔ایک بات تو ہر آنے والے دن میں ظاہر ہوتی جا رہی ہے کہ وباکو چیلنج سمجھتے ہوئے اس کا مقابلہ قومی جذبہ اور ولولہ کو بروئے کار لا کر کیا جا سکتا ہے ۔ حکومتی اقدامات اپنی جگہ لیکن وقت آ گیا ہے کہ اب اس وبا اور بلا سے نمٹنے کیلئے اداروں’سیاسی جماعتوں اور تمام طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا لیکن رہنمائی کا فریضہ حکومت اور اس کے اداروں کو اداکرنا ہوگا۔ اس امر کا جائزہ لینا پڑے گا کہ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے ہمارے اقدامات کتنے منطقی اور کتنے سطحی ہیں۔ حکومت کو اور کیا کچھ کرنا پڑے گا ۔اس حوالے سے دو آرا نہیں کہ پاکستان کی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر سخت فیصلے کئے اور مفاد عامہ میں جو بھی ممکن ہے کیا جا رہا ہے ۔ وقتی طور پر یقیناً اس حوالے سے مشکلات پیدا ہوئی ہیں مگر مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے مشکل اقدامات ناگزیر ہیں جو قومی مفاد سے جڑے ہوئے ہیں اور اب سب کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ یہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے ابتدا میں یہ مسئلہ ایک دو ملکوں کا لگتا تھا اب 180ممالک متاثرین میں شامل ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں قومی صحت کے حوالے سے سنجیدگی نہیں رہی۔ صحت کے حوالے سے سہولتوں کا فقدان رہا۔ ایسے میں جب کورونا وائرس جیسا موذی مرض سامنے آیا تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ادارے مرض سے جنگ لڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔یہ اعلان اور پیغام حکومت کی جانب سے درست آیا کہ ہمیں کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے ۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور ان کی حکومت کے طرزعمل’کردار اور اقدامات کو سراہا جانا ضروری ہے ۔ انہوں نے بروقت اس کا ادراک کیا اور بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع سے بچ گئے ۔ اب کرنے کے کام یہ ہیں کہ وینٹی لیٹرز کی فراہمی ممکن بنائی جائے ،کورونا کے ٹیسٹ ارزاں نرخوں پر کروانے کا بندوبست کیا جائے اور قرنطینہ میں تمام تر سہولتیں اور علاج ممکن بنایا جائے ۔سب کو سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا پڑے گا اور مل جل کر آگے بڑھنے میں ہی سب کا مفاد ہے ۔ دنیا میں قدرتی آفات اور سانحات میں اپوزیشن حکومت سے مل کر اپنا کردار ادا کرتی ہے ، اچھی بات ہے بلاول بھٹو زرداری نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو گرین سگنل دیا ہے ۔ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کو بھی اس مشکل وقت میں آگے آنا ہوگا اور سیاست کی بجائے انسانیت کے جذبہ کو بروئے کار لاتے ہوئے کورونا سے نمٹنا ہوگا۔ قومی سیاسی جماعتوں کے مثبت کردار سے عوام کی صفوں میں مایوسی کا خاتمہ ہو گا۔ جہاں تک وزیراعظم کی جانب سے سماجی میل جول کم کرنے کی اپیل کا تعلق ہے تو یہ بروقت ہی نہیں حقیقت پسندانہ ہے ۔ اس کا مقصد وائرس سے بچنا ہے اور سماجی میل جول میں کمی کے ذریعہ وائرس پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے ۔ پاکستانی قوم کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو قدرتی آفات ہوں یا سانحات’ وبائی امراض ہوں یا کوئی اور مصیبت اس قوم کے اندر جذبہ اور ولولہ بیدار کر کے ان سب پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس کیلئے ضروری ہے حکومت اور سیاسی جماعتیں آگے آئیں۔ ہاتھ ملانے کے رجحان میں بہت حد تک کمی نظر آ رہی ہے مگر سماجی میل جول کے حوالے سے تحریک زور نہیں پکڑ رہی اس پر قابو پانا ضروری ہے ۔