قومی اسمبلی:وزراغیر حاضر،حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام،اجلاس جمعہ تک ملتوی:سپریم کورٹ ججوں کی تعداد17سے23کرنیکا حکومتی بل تیار

قومی اسمبلی:وزراغیر حاضر،حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام،اجلاس جمعہ تک ملتوی:سپریم کورٹ ججوں کی تعداد17سے23کرنیکا حکومتی بل تیار

اسلام آباد(نامہ نگار،آئی این پی ) قومی اسمبلی کا اجلاس کورم کی نذرہو گیا، اپوزیشن رکن اورنگزیب کچھی کی جانب سے کورم کی نشاندہی پر حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام رہی جس کے بعد اجلاس جمعہ تک ملتوی کردیا گیا۔

اپوزیشن نے اجلاس سے واک آئوٹ کیا، قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی شاہ کی زیر صدارت شروع ہوا، پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے توجہ دلا ونوٹس پیش کرنا تھا تاہم  وزیر برائے آبی وسائل کی غیرموجودگی پر نوید قمر نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا، نوید قمر نے ایوان میں وزرا کی غیرحاضری پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ممبران بروقت پہنچ جاتے ہیں تو وزیر بھی جوابات دینے کے لیے ہونے چاہئیں، توجہ دلا ونوٹس پر جواب دینے کے لیے کوئی وزیر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اجلاس کا آغاز ساڑھے 11 بجے صبح ہونا تھا تو وزرا کی بھی ڈیوٹی ہے کہ ساڑھے 11 بجے ایوان میں پہنچ کر جواب دینے کے لیے تیار ہوں، اگر حکومت ہمیں سنجیدہ نہیں لے گی تو دنیا کیسے ہمیں سنجیدہ لے گی؟ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے نوید قمرکے موقف کی تائید کرتے کہا کہ آج کابینہ اجلاس شیڈول تھا، قومی اسمبلی اجلاس کے باعث وفاقی کابینہ اجلاس ری شیڈول کیا گیا پھر بھی وزرا ایوان میں نہیں آئے انہیں یہاں ہونا چاہیے تھا، ہمارے کہنے پر کابینہ اجلاس 10 بجے رکھا گیا۔تحریک انصاف کے رکن اورنگزیب کچھی نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کا موقع نہ ملنے پر کورم کی نشاندہی کردی جس کے بعد اپوزیشن ایوان سے باہر چلی گئی۔ گنتی مکمل کرانے پر کورم پورا نہ نکلا جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح 10:30 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ علاوہ ازیں حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کافیصلہ کر لیا۔ حکومتی رکن بیرسٹر دانیال چودھری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17سے 23کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے بل تیار کر لیا ہے ،عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعداد میں اضافے کابل آئندہ ہفتے ایوان میں پیش ہو گا۔

 اسلام آباد (اپنے رپورٹرسے ،مانیٹرنگ، نیوز ایجنسیاں )سینیٹ میں اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2024 اور الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی بل منظور کر لیے گئے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ نے بینکنگ کمپنیات(ترمیمی)بل 2024ء سمیت دو بلز واپس لے لئے ۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2024 اور انتخابات ایکٹ 2017 بل پیش کئے ، اپوزیشن نے مخالفت کی اور بل منظور نہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا ،چیئرمین سینیٹ نے اراکین سے شق وار رائے لینے کے بعد کثرت رائے سے منظور کر لئے ۔ اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2024 کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن نے احتجاج کیا ۔اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کی جانے والی کسی بھی قانون سازی کو ہم دیکھے بغیر منظور نہیں کرسکتے ۔ اس ایوان کو ربڑ سٹیمپ نہیں بنانے دیں گے ۔اس ایوان میں آنے والی قانون سازی کو پہلے متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کرنا چاہیے تاکہ اس پر سیر حاصل بحث ہوسکے ۔شبلی فراز نے تحریک انصاف کے دور میں ہونے والی قانون سازی پر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے دور حکومت میں ایسی قانون سازی ہوئی تو نہیں ہونی چاہیے تھی،امید ہے موجودہ چیئرمین ایسا نہیں کریں گے ہمیں یہ نہ کہا جائے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا ہے تو ہم بھی کردیں، یہاں بیٹھے قانون ساز لوگ کوئی بھیڑ بکریاں نہیں ہیں، اسلام آباد لوکل گورنمنٹ قانون میں ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے ۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ میں نے اس ایوان کا کسٹوڈین ہوں حکومت کا نہیں ، اس ایوان میں قانون سازی آئین اور قانون کے مطابق ہوگی انہوں نے حکومت کو ہدایت کی کہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی قانون سازی متعلقہ کمیٹیوں کی رپورٹ کے بعد ہوگی ۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے اجلاس جمعہ تک ملتوی کر دیا۔قبل ازیں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر سیاست نہ کریں ،دہشتگردی کے خاتمے کیلئے چاہے ایک ہزار ارب خرچ ہوں اب ہمیں آپریشن کرنا چاہئے ،پیٹ کاٹ کر اگر دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے ۔ ماضی میں ہم نے کامیاب آپریشن کیے مگر پھر مذاکرات کے نام پر بڑی غلطیاں کیں اور دہشت گردوں کو ہم نے جیلوں سے چھڑوایا ۔بلوچستان میں معصوم لوگوں کے قتل عام میں ملوث عناصر سے کسی صورت بھی مذاکرات نہیں ہونگے ۔بلوچستان کے موجودہ حالات پر ہر دل رنجیدہ ہے ، تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا جو پاکستان اور پاکستان کے جھنڈے کو تسلیم کرتے ہیں ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے ۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مل بیٹھنا ہوگا، اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ سیاسی مسائل کو طاقت سے حل نہیں کرنا چاہیے ۔سینیٹر کامران مرتضی ٰ نے کہا کہ معاملات کو درست نہ کیا تو وفاق ٹوٹ سکتا۔شیری رحمان نے کہا کہ اچھے اور برے دہشتگردوں کی تمیز ختم کرنا ہوگی۔سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر سیاست نہ کریں ، آپریشن پر چاہے ایک ہزار ارب خرچ ہوں امن لایا جائے ، وزیراعظم ایک دو روز میں بلوچستان جارہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی وہاں پہنچ گئے ہیں، ہم آج بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کو تسلیم کرنے والوں سے مذاکرات ہونے چاہئیں مگر ناراضی کے نام پر پہاڑوں پر چڑھنے والوں کے اقدامات کی مذمت اور اُن کے خلاف کارروائی ضروری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پہاڑوں پر چڑھ کر قتل عام کرنے والے بیرونی ایجنسیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ ملک کو بحرانی کیفیت سے دوچار کرنا چاہتے ہیں، دشمن کی خواہش ہے کہ ایٹمی طاقت کا حامل ملک کسی بھی صورت معاشی طور پر مستحکم نہ ہو۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان ہمیں اتنا ہی عزیز ہے جتنے دوسرے صوبے ہیں، ہر پاکستانی کا دل حالیہ دہشت گردی پر رنجیدہ ہے ، ہمیں اس معاملے پر سیاست کے بجائے آگے ملکر بڑھنا ہوگا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی بنائی جائے اور دونوں طرف سے نمائندوں کو شامل کیا جائے ، ایوان میں بہت ذہین لوگ ہیں اور سینیٹ ایک فیڈریشن کی نمائندگی والی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر کسی بھی علاقے کے مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے ۔اسحاق ڈار نے کہا کہ شفافیت کے ساتھ ہمیں سوچنا ہے کہ ہمیں ملک میں امن کیسے واپس لانا ہے ،قوم نے 2014 میں اے پی ایس واقعے کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا، ہم نے کم وقت میں جنگ کی، آپریشن ضرب عضب، ردالفساد سے لڑائی لڑ کر صورت حال کو قابو کیا، ہم نے پیٹ کاٹ کر یہ قدم اٹھایا کیونکہ آپریشنز پر سالانہ 100 ارب روپے خرچ ہوئے ۔نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر اب دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک ہزار ارب کے اخراجات بھی آئے تو پھر بھی ہمیں آپریشن کرنا چاہیے ، ہمیں ایسے لوگوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا جو ملک کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے کامیاب آپریشن کیے مگر پھر مذاکرات کے نام پر بڑی غلطیاں کیں اور دہشت گردوں کو ہم نے جیلوں سے چھڑوایا ، آپریشن کے باعث بھاگنے والے پاکستان دوبارہ واپس آئے ۔نائب وزیر اعظم نے کہا کہ معاشی اور دہشت گردی کے مسائل پر سوچنا چاہئے ، سینیٹ کو ملکر بیٹھنا ہوگا اور سیاست سے بالا ہوکر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ناراضی کے نام پر دہشت گردی کسی صورت قبول نہیں، ریاست تو ماں ہوتی ہے ، آپ آئین ملک، قانون اور ریاست کو تسلیم کریں تو بات ہوگی ۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ بلوچستان پرحملہ کرنے والے رعایت کے مستحق نہیں ۔ہمیں اپنے ٹارگٹ سے دائیں،بائیں نہیں ہونا چاہیے ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل بیٹھنا ہوگا، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سانحہ اے پی ایس کی طرح متحد ہونا ہوگا ۔اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ یہ انتہائی دکھ اور درد کی بات ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان شدید مسائل کا شکار ہے ، انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے بلوچستان کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سننے میں نہیں آرہی ۔ سیاسی مسائل کو طاقت سے حل نہیں کرنا چاہیے بلکہ سیاسی انداز میں حل کرنا چاہیے ، انہوں نے کہاکہ ناراض بلوچوں سے بات کرنی چاہیے اور انہیں سیاسی طور پر قریب لانے کی کوشش کی جائے ۔ شبلی فراز نے کہا کہ کچے کے علاقے میں پولیس کے ساتھ جو ہوا ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آئی جی پولیس ایک شخص کی برآمدگی پر مبارکبادیں لے رہے ہیں ۔ عام لوگوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گھروں پر تو روز چھاپے مارتے ہیں مگر جس کام کیلئے آپ کو بھرتی کیا گیا ہے ان سے تو مقابلہ نہیں کر رہے ۔ کیا پنجاب پولیس کے پاس اہلیت نہیں ۔ ہمیں وزیر داخلہ بتائیں کہ یہ ملک میں کیا ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے کیلئے قانون لائے جارہے ہیں اس سے حالات مزید خراب ہونگے ۔ کامران مرتضیٰ نے کہاکہ معاملات کو درست کرنا چاہیے اگر درست نہ کیا تو وفاق ٹوٹ سکتا ہے ۔ شیری رحمان نے کہا کہ ہمیں اچھے اور برے دہشت گردوں کی تمیز ختم کرنا ہوگی ۔دہشت گرد دہشت گرد اورتخریب کار ہی ہوتا ہے ۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اختلافات کو چھوڑ کر مثبت تجاویز حکومت کودی جائیں۔ ہمیں پرامن پاکستان کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔ اے این پی کے ایمل ولی خان نے کہاکہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی نے پوری قوم کو افسردہ کردیا ۔ایوان میں مختلف سانحات میں پاک فوج، پولیس کے شہدا کیلئے دعا کرائی گئی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں