پنجاب میں تقررو تبادلوں پر پابندی غیر قانونی قرار:سماعت آئینی بینچ کرے:حکومتی وکیل:یہ اسی عدالت کا اختیار:لاہور ہائیکورٹ

پنجاب میں تقررو تبادلوں پر پابندی غیر قانونی قرار:سماعت آئینی بینچ کرے:حکومتی وکیل:یہ اسی عدالت کا اختیار:لاہور ہائیکورٹ

لاہور (دنیا نیوز،عدالتی رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں سرکاری ملازمین کے تبادلوں پر پابندی کا فیصلہ غیرقانونی قراردے دیا،حکومتی وکیل نے استدعا کی کہ سماعت آئینی بینچ کرے لاہور ہائیکورٹ نے کہا یہ اسی عدالت کا اختیار ہے ، ایک اور کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو 5دسمبر تک نظربندی کے احکامات جاری کرنے سے بھی روک دیا۔

پنجاب حکومت کے یکم مارچ کے نوٹیفکیشن میں سرکاری ملازمین کے تبادلوں پر پابندی عائد کی گئی تھی،جسٹس عاصم حفیظ نے 8صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیاکہ سرکاری ملازمین ، بیورو کریسی کو محکوم بنا کر وزیر اعلیٰ کو اختیارات کی عظمت دی گئی، ایگزیکٹو اتھارٹی کا حد سے تجاوز کرنا چیک اینڈ بیلنس کے انتظامی توازن کو خراب کرنا ہے ، آئینی ترمیم کی غلط تشریح کر کے آئینی بینچز کے نکتہ پر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا گیا ، نوٹیفکیشن کے بعد اور عدالتی فیصلے سے پہلے تقرر و تبادلوں کے متعلق فیصلے ویسے ہی رہیں گے ، عدالت کے سامنے قانونی نکتہ تھا کہ کیا وزیراعلیٰ کا ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اختیارات کا استعمال کرنا جائز ہے ، سرکاری وکیل کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کو رولز آف بزنس اور سول سرونٹس ایکٹ کے تحت پابندی عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے ، پنجاب رولز آف بزنس وزیر اعلیٰ پنجاب کو تقرر و تبادلوں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اختیار نہیں دیتے ۔رولز آف بزنس محض تقررو تبادلے کرنے کی منظوری دینے یا نہ دینے کا اختیار دیتے ہیں، اختیارات کے استعمال کی آڑ میں ایگزیکٹوز کسی بھی صورت میں قانون سازوں کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے ،تقرر و تبادلوں کا مرکز اگر وزیر اعلیٰ کو بنانا ہے تو اس کیلئے قانون میں ترامیم کی ضرورت ہوتی ہے ، انتظامی مسائل سے بچنے کیلئے نوٹیفکیشن کے تحت جو تقرر تبادلے ہوئے وہ اپنی جگہ رہیں گے۔

مجاز اتھارٹی ان تقرر تبادلوں کو جاری رکھنے یا منسوخ کرنے میں بااختیار ہے ، درخواست ایریگیشن کے ملازم کی جانب سے دائر کی گئی تھی ۔دریں اثنا لاہور ہائیکورٹ نے نظر بندیوں کے احکامات کی قانونی حیثیت کے خلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو پانچ دسمبر تک کسی بھی قسم کے نظر بندی کے احکامات جاری کرنے سے روک دیا، عدالت نے آئندہ سماعت پر وکلا کو نظر بندی کے سیکشن 3 کی قانونی حیثیت پر دلائل دینے کی ہدایت کردی ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی درخواست پر فیصلہ سنایا ،سرکاری وکیل کا موقف تھا کہ 2022 سے لے کر اب تک حکومت نے نظر بندی کے 20 ہزار احکامات جاری کئے 2023 میں 4ہزار470نظر بندی کے احکامات جاری کیے گئے وکیل درخواست گزار کا موقف تھا کہ حکومت نظر بندی کے احکامات کو سیاسی بنیادوں پر استعمال کرتی ہے ، آئین کے آرٹیکل دس اے کے تحت نظر بندیوں کے قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے ،درخواست پی ٹی آئی کے نائب صدر لاہور یاسر گیلانی نے دائر کی تھی، علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف گجرات کے صدر سلیم سرور جوڑا کی نظر بندی کیخلاف درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے سلیم سرور جوڑا کی اہلیہ ام رباب کی درخواست پر سماعت کی،درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے ،عدالت کو بتایا گیا کہ سلیم سرور جوڑا پی ٹی آئی گجرات کے صدر ہیں،ڈپٹی کمشنر گجرات نے 21 اگست کو نظر بندی کا حکم دیا،سیاسی بنیادوں پر جاری کیا گیا نظر بندی کا حکم غیر قانونی اور غیر آئینی ہے ،پنجاب نقص امن و عامہ آرڈیننس کی دفعہ 3 آئین سے متصادم ہے ،عدالت سلیم سرور جوڑا کی نظربندی کا حکم اور پنجاب نقص امن و عامہ آرڈیننس کی دفعہ 3 کو کالعدم قرار دے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں