ریپ یا شادی کے بغیر پیدا بچوں کی کفالت بائیولوجیکل والد کی ذمہ داری: لاہور ہائیکورٹ

ریپ یا شادی کے بغیر پیدا بچوں کی کفالت بائیولوجیکل والد کی ذمہ داری: لاہور ہائیکورٹ

لاہور(محمد اشفاق سے)لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ کا بڑا فیصلہ، عدالت نے ریپ یا شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت کرنا بائیولوجیکل والد کی ذمہ داری قرار دے دیا۔ جسٹس احمد ندیم ارشد نے قرار دیا کہ جو بچی پیدا ہونے کا ذمہ دار ہے کفالت بھی اسی کے ذمے ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

تفصیلات کے مطابق جسٹس احمد ندیم ارشد نے افضل کی درخواست پر 15 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔فیصلے میں عدالت نے پانچ سالہ بچی کے خرچے کے دعوے سے متعلق کیس ٹرائل کورٹ کو بھجواتے ہوئے شواہد کی روشنی میں دوبارہ فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی ۔عدالت نے قرار دیا کہ اگر خاتون ثابت کرے کہ بچی کا بائیولوجیکل والد درخواست گزار ہے تو ٹرائل کورٹ بچی کا خرچہ مقرر کرے ۔ عدالت نے تمام فریقین کو ٹرائل کورٹ کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کردی۔ جسٹس احمد ندیم ارشد نے فیصلے میں لکھا کہ انصاف اور برابری کا تقاضا یہ ہے اگر بچی کا بائیولوجیکل والد ثابت ہوجائے تو وہ اسکے اخراجات کا پابند ہے بائیولوجیکل والد کی اخلاقی ذمہ دار بھی ہے وہ اپنے ناجائز بچے کی ذمہ داری اٹھائے ۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق 2020 میں درخواست گزار نے خاتون مریم سے مبینہ زیادتی کی ۔درخواست گزار کیخلاف زیادتی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ مبینہ زیادتی کے نتیجے میں خاتون نے بیٹی کو جنم دیا خاتون نے بچی کے خرچے کے لیے بائیولوجیکل والد کیخلاف دعویٰ دائر کیا جبکہ درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ میں بیان دیا کہ بچی اسکی نہیں لہذا خرچے کا دعویٰ مسترد کیا جائے تاہم ٹرائل کورٹ نے خاتون کا دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے بچی کا 3 ہزار خرچہ مقرر کردیا۔

درخواست گزار افضل نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا فیصلے میں کہا گیاکہ یہ بچے کے خرچے کا کوئی معمولی کیس نہیں،جائز بچے اور بائیولوجیکل بچے کی ٹرم میں بہت فرق ہے ایک بائیولوجیکل بچہ شادی کے بغیر جبکہ جائز بچہ قانونی شادی سے پیدا ہوتا ہے ،جائز بچے کے خرچے کیلئے دعویٰ دائر ہو تو مسلم قوانین کے مطابق ٹرائل کورٹ کو عبوری خرچہ لگانے کا اختیار ہوتا ہے ۔جب ایک خاتون بائیولوجیکل بچے کے خرچے کیلئے دعویٰ دائر کرے اور والد تسلیم کرنے سے انکار کرے کہ بچہ اسکا نہیں تو پھر کہانی مختلف ہوتی ہے ۔عدالت نے قرار دیا کہ بائیولوجیکل بچے کی ولدیت ثابت کرناخاتون کی ذمہ داری ہے اسلام میں بچے کی حیثیت جاننے کیلئے متعدد طریقہ کار موجود ہیں بچے کے خرچے سے متعلق دعوے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بچے کی قانونی بائیولوجیکل حیثیت دیکھی جائے اگر بچے کی ولدیت کا معاملہ ہی شکوک و شبہات کا شکار ہے تو عدالت کو خرچے کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ معاملہ طے کرنا چاہیے بچے کی قانونی حیثیت طے کیے بغیر خرچہ مقرر کرنا غیر شفافیت ہے ۔

عدالت نے لکھا کہ ٹرائل کورٹ میں دلائل کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالتی دائرہ پر اعتراض اٹھایا درخواست گزار کے مطابق خاتون کو بچے کی ولدیت ثابت کرنے کیلئے متعلقہ عدالت سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی ۔درخواست گزار کے مطابق وہ کسی نا جائز بچے کی پرورش کا ذمہ دار نہیں عدالتی فیصلے میں قرآنی آیات،احادیث اور شریعت کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ۔ فیصلے کے مطابق ویسٹ پاکستان فیملی ایکٹ 1964 شادی اور دیگر فیملی معاملات سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا درخواست گزار کا فیملی عدالت کے دائرہ اختیار کا اعتراض درست نہیں۔سی آر پی سی کے سیکشن 488 کے تحت فیملی نوعیت کے معاملات کیلئے مجسٹریٹ کو دائرہ اختیار حاصل ہے فیملی قوانین میں کہیں بھی جائز یاناجائز بچے کا ذکر نہیں ۔بنگلہ دیش کے قانونی سسٹم میں ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو حقوق دئیے گئے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں