دہشتگردی کیخلاف ہر آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ:سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ،گورننس کا خلاکب تک فوج اور شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے: آرمی چیف

دہشتگردی کیخلاف ہر آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ:سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ،گورننس کا خلاکب تک فوج اور شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے: آرمی چیف

اسلام آباد(نامہ نگار،اے پی پی،دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لئے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ اور ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لئے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

سیاسی وعسکری قیادت نے فیصلہ کیا ہے دہشت گردی کو تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے اور ہر آپشن استعمال کیا جائے گا۔پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے متفقہ اعلامیہ کی منظوری دی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمانی کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ملکی سلامتی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ کمیٹی نے دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ گہری یکجہتی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے انسداد دہشتگردی آپریشنز میں سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری ، شجاعت اور پیشہ وارانہ مہارت کو سراہتے ہوئے دہشتگردی کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لئے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔ کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشتگردی کیلئے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔ کمیٹی نے دہشتگردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے ، لاجسٹک سپورٹ کے انسداد اور دہشتگردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عملدرآمد پر زور دیا۔کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے ، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لئے دہشتگرد گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات پر زور دیا۔

کمیٹی نے دہشتگردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لئے طریقہ کار وضح کرنے پر بھی زور دیا۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے کمیٹی نے انکی قربانیوں اور ملکی دفاع کے عزم کا اعتراف کیا اور کہا قوم دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مسلح افواج، پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے ، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی اجلاس میں عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے اعادہ کیا اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین، چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر، اہم وفاقی وزرا اور فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

سپیکر ایاز صادق نے اعلامیہ منظوری کیلئے قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا جسکی کمیٹی نے متفقہ طور پر منظوری دی۔قبل ازیں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا بند کمرہ اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی عاصم ملک، ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی بی فواد اسد اجلاس میں شریک ہوئے ۔وزیرِ اعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، وزیر دفاع خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، وزیر خزانہ اورنگزیب، احسن اقبال، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، فیصل واوڈا، خالد مقبول صدیقی، جام کمال، وزیر اعظم آزاد کشمیر اور وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز اور آئی جی پولیس بھی اجلاس میں شریک ہوئے جبکہ وفاقی کابینہ کے 38 ارکان بھی اجلاس میں شریک تھے ۔پیپلز پارٹی کے 16 ارکان پارلیمنٹ بلاول بھٹو کی سربراہی میں شریک ہوئے ، مسلم لیگ ق کے 2 ارکان پارلیمنٹ، استحکام پاکستان پارٹی کے عبدالعلیم خان اور نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان محمد، مسلم لیگ ضیا کے اعجازالحق نے اجلاس میں شرکت کی۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی بشیر خان ایوان میں پہنچے اور کچھ دیر رکنے کے بعد واپس چلے گئے ۔

اجلاس میں سربراہ بی این پی مینگل اختر مینگل کو بھی بلایا گیا لیکن انہوں نے شرکت نہیں کی۔سپیکر ایاز صادق نے شرکا کا خیرمقدم کیا۔ اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا، تلاوت کلام پاک کے بعد قومی ترانہ بجایا گیا۔سپیکر نے ابتدائی خیر مقدمی کلمات میں کہا تمام شرکا کو خوش آمدید کہتا ہوں، ملک کو درپیش حالات اتحاد اور ہم آہنگی کے متقاضی ہیں۔ایاز صادق نے کہا افسوس ہے اپوزیشن نے اجلاس میں شرکت نہیں کی، اچھا ہوتا وہ بھی شریک ہوتے ، ہمیں ملکر ملک کو مسائل سے نکالنا ہے ، اپوزیشن کا رویہ پارلیمانی روایات کے منافی ہے ۔وزیراعظم شہبازشریف نے اظہار خیال کرتے کہا دہشتگردی ملک کے لیے ناسور بن چکی اس کا پائیدار حل نکالنا ہے ، دہشتگردوں کا آخری حد تک پیچھا کرینگے ، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پوری قوم متحد ہے ،ہمارے بہادر جوان ملک کی سلامتی کے لیے جانیں دے رہے ہیں ۔وزیر اعظم نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں عسکری قیادت بالخصوص آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا دہشتگردی کی پاکستان کی سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ،ہم ملک کو دہشتگردی سے پاک کر کے رہیں گے ۔ سیاسی قیادت اختلافات ایک طرف رکھ کر قومی سلامتی پر ایک ہے ، دہشتگردی کو ہرصورت شکست دیں گے ، اچھا ہوتا اگر اپوزیشن کے دوست بھی اہم اجلاس میں شرکت کرتے ۔ اپوزیشن کی عدم شرکت افسوسناک اور قومی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہے ۔انہوں نے کہا شہدا اور سکیورٹی فورسز کی قربانیاں فراموش نہیں کر سکتے ، اس کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ نے جو حکمت عملی اپنائی ہے ہم اس پر عمل کرتے ہوئے آخری حد تک جائیں گے ۔

وزیراعظم نے کہا ملک کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے امن و امان و سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے کمیٹی شرکا کو بریفنگ دی۔پارلیمانی کمیٹی کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی، بلوچستان میں عسکریت پسند اور دہشتگرد تنظیموں کی کارروائیوں سے آگاہ کیا گیا۔ذرائع کے مطابق شرکا کو سکرین اور سلائیڈز کی مدد سے اہم شواہد کے ساتھ صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ آرمی چیف نے 50 منٹ اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے 30 منٹ بریفنگ دی۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے پارلیمانی کمیٹی میں خطاب کرتے کہا ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں ،کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں، پائیدار استحکام کے لئے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے ،اس لئے ہم کو بہتر گورننس اور پاکستان کو مضبوط ریاست بنانے کی ضرورت ہے ہم کب تک ایک نرم ریاست کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے ،ملک کو ہارڈ سٹیٹ بنانا ہوگا ۔ آرمی چیف نے کہا ہم گورننس کے خلا کو کب تک افوج پاکستان اور شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے ۔ آرمی چیف نے کہا علما سے درخواست ہے وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں، اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لئے کوئی چیز نہیں، پاکستان کے تحفظ کیلئے یک زبان ہو کر سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہو گا،جو سمجھتے ہیں وہ پاکستان کو ان دہشتگردوں کے ذریعے کمزور کر سکتے ہیں آج کا دن ان کو یہ پیغام دیتاہے کہ ہم متحد ہو کر نا صرف انکو بلکہ انکے تمام سہولت کاروں کو بھی ناکام کریں گے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے جو کچھ بھی ہو جائے انشا اللہ ہم کامیاب ہونگے ۔

آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد 15 منٹ کا وقفہ کر دیا گیا۔وقفے کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے خطاب کرتے صوبہ کی داخلی و خارجی صورتحال سے متعلق آگاہ کیا۔ذرائع کے مطابق گنڈا پور کا کہنا تھا دہشتگرد افغانستان سے آرہے ہیں اور میرے لوگ دہشتگرد نہیں ، مجھے کرسی کی پروا نہیں سچی کھری بات کروں گا۔ صوبے کو درپیش چیلنجز کے باوجود پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کا مورال بلند کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔وزیراعلیٰ نے پولیس کی تنخواہوں میں اضافے کا بھی ذکر کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ صوبے کی فورسز کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کو تاحال مکمل وسائل فراہم نہیں کیے گئے جس سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت مسلسل وفاق سے اس معاملے پر بات کر رہی ہے تاکہ قبائلی اضلاع کو ان کا حق دیا جا سکے ۔علی امین گنڈاپور نے افواجِ پاکستان کی قربانیوں کو سراہتے کہا دہشتگردی کے خلاف فوج نے خیبرپختونخوا میں بے پناہ کام کیا ہے اور قیامِ امن کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ملک میں موجود باہمی بداعتمادی کو ختم کرنا ہوگا اور ایک دوسرے پر بھروسہ بڑھانا ہوگا۔وزیر اعلیٰ نے پی ٹی آئی کے بائیکاٹ پر کوئی بات نہیں کی ۔ وزیر دفاع خواجہ آصف ، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی ،اے این پی کے ایمل ولی خان،انوار الحق کاکڑ نے اظہار خیال کرتے اپنی تجاویز کمیٹی کی سامنے رکھیں۔جے یوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے والا دہشت گرد ہے ، دہشتگردی کا کوئی مذہب اور فرقہ نہیں، سیاسی قیادت اور قوم کو کسی مخمصے کا شکار ہوئے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ان کیمرا اجلاس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا تحریک انصاف کو یہاں نہ دیکھ کر مایوسی ہوئی، مجھ سے مشورہ کرتے تو ان کو اجلاس میں آنے کا ضرور کہتا،1988سے اس ایوان کا حصہ رہا ہوں، آئین سے وفاداری کا حلف اٹھاتا رہا ہوں۔

میں استاد کو شہیدکہوں گا لیکن مارنے والے کو مجاہد نہیں کہہ سکتا، پہلے بھی مختلف مکتبہ فکرکے لوگوں نے فتویٰ دیا ہے ، ہم نے بھی کہا ہے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا دہشتگرد ہے ۔ ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ایشو پر اکھٹا ہونا ہوگا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دینے والے ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے ریاست کی پالیسیوں میں تسلسل کو ناگزیر قرار یتے کہا ریاست کو کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے ، افغانستان کے خلاف جنگ میں حصہ بننے کا نقصان پاکستان کو بھگتنا پڑا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی خطاب کیا،اور افغانستان سے بڑھتی ہوئی دہشتگردی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ذرائع کے مطابق بلاول نے کہا افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور جو آگ پاکستان میں لگی ہے ، ہمارے اردگرد کے ممالک یہ نہ سمجھیں کہ وہ اس سے محفوظ رہیں گے ۔انہوں نے کہا دہشتگردوں کی مالی مدد کرنے والوں کا بھی سراغ لگانا ہوگا اور افغانستان میں دہشت گردی کے مسئلے کو بھرپور انداز میں سفارتی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا۔ دنیا کو افغان حکومت کے کردار سے آگاہ کرنا ضروری ہے اور پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی مزید مؤثر بنانی ہوگی۔بلاول نے کہا عالمی برادری کو بھی اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ دہشتگردی کی یہ آگ سات سمندر پار تک پہنچ سکتی ہے اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا۔ انہوں نے زور دیا کہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کون کر رہا ہے ، اس کی تحقیقات کی جائیں۔انہوں نے سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے کہا دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔

اسلام آباد(خصوصی نیوزرپورٹر،دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا  بائیکاٹ کیا جبکہ تحریک تحفظ آئین کی قیادت بھی اجلاس میں شریک نہ ہوئی ۔اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین کے رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہم نے اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ہے ، یہ فیصلہ ہم نے گزشتہ روز سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں کیا۔انہوں نے واضح کیا ہم اس وقت کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں، 77 سال سے ان حالات کا شکار ہیں اور انکے حق میں نہیں ہیں، ہمارا مطالبہ ہے بانی پی ٹی آئی کو پے رول پر رہا کیا جائے ، ہم نے اس ملک کو ٹھیک اور فسطائیت کا خاتمہ کرنا ہے ۔اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا میں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مشروط خط لکھا ہے ، ہمیں کورٹ آرڈر کے ساتھ بھی بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دیا جاتا ، کل اچانک قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا مگر ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا غیر آئینی وزیراعظم کی دعوت پر قومی سلامتی کے اجلاس میں کیسے جائیں؟ پاکستان انتہائی خطرناک دور سے گزر رہا ہے ۔ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ جوائنٹ سیشن کو 2 دن دیئے جائیں، ہر ایم این اے بات کرے ، ہم بچے نہیں ہیں کہ ان کیمرہ میٹنگ کی باتیں باہر نکالیں گے ، ہم نے بنیادی طور پر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے ۔ ملکی سلامتی کیلئے بلائی گئی کسی بھی میٹنگ میں ہر سیاسی جماعت کے نمائندوں کو بلایا جائے ، عمران خان کو بھی اس قسم کی میٹنگ میں بلایا جائے انکے بغیر میٹنگ کی اہمیت نہیں ہوگی، ملکی سلامتی کی میٹنگز میں جماعت اسلامی کے نمائندے بھی شریک ہونے چاہئیں۔علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا عوام اس حکومت پر اعتماد نہیں کرتے ، عدلیہ میں ریفارمز کر کے اس کو بھی کمزور کر دیا گیا، بانی پی ٹی آئی کو آن بورڈ لئے بغیر جو بھی فیصلہ کیا گیا وہ عوامی فیصلے نہیں ہونگے ، عوام قبول نہیں کرینگے ۔سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے کہا اس وقت ملک کی خود مختاری کا مسئلہ ہے ہمارا مطالبہ ہے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلایا جائے ، بانی پی ٹی آئی اس وقت بڑے لیڈر ہیں ان کو اعتماد میں لئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ہماری رائے ہے کہ آپریشن کی بجائے مذاکرات پر غور کرنا چاہیے ، پی ٹی آئی کے حوالے سے غیر ضروری قیاس آرائیاں کی گئیں، کوئی بھی نہ سوچے کہ ہم بانی پی ٹی آئی سے غداری کر کے کسی میٹنگ میں شریک ہونگے ۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس نہیں بلانا چاہیے تھا، موجودہ حکومت اس قابل نہیں کہ ان کو بریفنگ دی جائے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں