غیرت کے نام پر بہن کا قتل ،ملزم کی عمر قید کی سزا کالعدم
ملزم کا پولیس انٹرویو ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ہونا چاہیے :لاہور ہائیکورٹ پراسیکیوشن کیس ثابت نہ کرسکی،متعلقہ شواہد پر خصوصی توجہ دیں:جسٹس امجد
لاہور(کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ نے غیرت کے نام پر بہن کو قتل کرنے والے ملزم کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دے دی ۔ جسٹس امجد رفیق نے عمر قید کی سزا پانے والے ایاز عادل کی اپیل پر 42 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ قانون میں پولیس کے سامنے اعترافی بیان کو بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جاتا،ترقی یافتہ ممالک میں تفتیشی افسران پر اعتماد کرتے ہوئے پولیس کے سامنے بیان کو شہادت کا حصہ بنایا گیا ہے پاکستان میں فوجداری نظامِ انصاف کے مختلف اجزاء کے درمیان اعتماد کا فقدان موجود ہے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 21-H واحد قانونی شق ہے جو پولیس انٹرویو یا ملزم کے اعترافی بیان کو قانونی حیثیت دیتی ہے ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کا پولیس انٹرویو ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ہونا چاہیے اگر ملزم اپنے جرم کا اعتراف نہ کرے تو پولیس مجسٹریٹ کی موجودگی میں اس سے شواہد بھی حاصل کر سکتی ہے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کا الزام ثابت کرنے میں پراسیکیوشن کی ناکامی کے معاشرے پر گہرے اثرات ہوتے ہیں سزائیں نہ ہونے پر خواتین عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہیں
جس سے ملزم کو حوصلہ ملتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اس جرم کے ارتکاب پر آمادہ کرے ملزم کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے سول کارروائی بھی ایک اور مؤثر ذریعہ ہے ، اصولی طور پر فوجداری مقدمے کے بعد بھی سول کارروائی ممنوع نہیں ہوتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں پراسیکیوشن کے مطابق مقتولہ کی لاش چارپائی پر پڑی تھی تاہم برآمدگی کے دوران چارپائی کو قبضے میں نہیں لیا گیا ملزم سے آلہ قتل بھی موقع سے برآمد نہ ہو سکا حیران کن طور پر صحن کے دھوئے جانے کے باوجود لاش کے قریب سے ایک خالی خول مبینہ طور پر برآمد کیا گیااگرچہ لاش جائے وقوعہ سے برآمد ہوئی، تاہم پراسیکیوشن یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ قتل واقعی اسی مقام پر ہوا تھا۔ یہ امر پراسیکیوشن کے مقدمے میں پہلا بڑا شگاف قرار پاتا ہے فیصلے کے مطابق ملزم پر گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ملکر بہن کو قتل کرنے کا الزام تھا ملزم ایاز عادل اور دیگر کے خلاف فیصل آباد میں قتل ،اقدام قتل اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ۔
سیشن عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایاز عادل کو عمر قید کی سزاسنائی جبکہ شریک ملزموں کو بری کردیا تھا ۔فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل کامران عادل کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں غیرت کے نام پر قتل میں کمی واقع ہوئی 2020 میں صوبے میں غیرت کے نام پر قتل کے 203 جبکہ 2025 میں غیرت کے نام پر قتل کے 96 کیسز رپورٹ ہوئے ،عدالت نے اپنے فیصلے میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی تفتیش اور شواہد اکٹھے کرنے کے حوالے سے متعدد تجاویز دے دیں اور پولیس اور پراسیکیوشن کو ہدایت کی کہ ایسے طریقے یا تکنیک استعمال کرتے ہوئے متعلقہ شواہد کو خصوصی توجہ میں رکھا جائے اور عدالت کے سامنے مؤثر انداز میں یکجا کر کے پیش کیا جائے ،موجودہ کیس میں پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی، عدالت ملزم کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتی ہے ۔