ترقیاتی بجٹ میں کمی 118 منصوبے ختم : معاشی مشکلات کے باعث وفاقی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں جارہا ہے، صوبوں اور وفاق کو قومی مفاد میں فیصلے کرنا ہونگے : احسن اقبال
اسلام آباد(مدثرعلی رانا)وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا کہ نصف سے زائد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جائے گا، 118 سے زائد غیر ضروری منصوبے بند کردیئے ہیں جس سے 1 ہزار ارب روپے کی بچت ہو گی۔ ہمارا پی ایس ڈی پی 14 سو ارب تھا جو رواں مالی سال کم ہو کر 11 سو ارب روپے تک محدود ہو گیا، محدود فنڈز میں صرف اہم قومی منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
ہمیں احساس ہے وقت کے ساتھ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا نہ کہ اسے مزید محدود کرنا۔ 2018 میں نئے منصوبے شروع کرنے کے بارے میں سوچتے تھے ،آج جاری منصوبوں کو محدود کرنے کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنا پڑے ۔ قومی ترقی میں سب کو اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ اگر کوئی منصوبہ شامل نہ ہو سکا تو پیشگی معذرت۔معاشی مشکلات کے باعث وفاقی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں جارہا ہے ،صوبوں اور وفاق کو قومی مفاد میں فیصلے کرنا ہونگے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کے اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے معاشی چیلنجز کے باعث قومی ترقیاتی بجٹ میں مسلسل کمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔ ترقیاتی فنڈز میں وسعت وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ عوام صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور انفراسٹرکچر میں بہتری کی توقع منتخب حکومتوں سے رکھتے ہیں۔ احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس چوری کی روک تھام اور ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ کے لیے قومی سطح پر مربوط مہم کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں نئے منصوبے شروع کرنے کے بارے میں سوچتے تھے ،آج جاری منصوبوں کو محدود کرنے کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے پڑے ۔ موجودہ وسائل میں ترقیاتی بجٹ کو مینج کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے ۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ 118 سے زائد کم ترجیحی یا غیر فعال منصوبے بند کیے جا چکے ہیں جب کہ محدود فنڈز میں صرف اہم قومی منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔
پی ایس ڈی پی میں غیر ملکی فنڈنگ والے منصوبے بھی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ دیا میر بھاشا ڈیم، سکھرحیدرآباد موٹر وے ، چمن روڈ، قراقرم ہائی وے (فیز ٹو) جیسے بڑے منصوبے قومی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی بروقت تکمیل پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہے ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اُڑان پاکستان پروگرام کے تحت تمام صوبوں میں ورکشاپس کا انعقاد کر کے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔علاوہ ازیں سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کیلئے اہم اور سخت اہداف کی منظوری دے دی گئی، آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 4.2 فیصد اور افراط زر کیلئے 7.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے ، زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.5 فیصد، بڑی فصلوں کی ترقی کا ہدف 6.7 فیصد ،کپاس کی ترقی کا ہدف 7 فیصد، لائیو سٹاک کی ترقی کا ہدف 4.2 فیصد،جنگلات کی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد ،ماہی گیری کی ترقی کا ہدف 3 فیصد، صنعتی ترقی کا ہدف 4.3 فیصد، معدنی ترقی کا ہدف 3 فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، بجٹ دستاویز کیمطابق مینوفیکچرنگ کی ترقی کا ہدف 4.7 فیصد، لارج سکیل ترقی کا ہدف 3.5 فیصد، سمال سکیل صنعتی ترقی کا ہدف 8.9 فیصد ،تعمیرات کی ترقی کا ہدف 3.8 فیصد، بجلی، گیس واٹر سپلائی کی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد،خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 4 فیصد، ہول سیل اور ریٹیل کی ترقی کا ہدف 3.9 فیصد، مواصلات اور ٹرانسپورٹ گروتھ کا ہدف 3.4 فیصد مقرر کیا گیا ہے ، آئندہ مالی سال ہوٹل اور غذائی ترقی کا ہدف 4.1 فیصد، اطلاعات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 5 فیصد ، انشورنس اور مالیات کی ترقی کا ہدف 5 فیصد ، ریئل اسٹیٹ کی ترقی کا ہدف 4.2 فیصد ،،حکومتی خدمات کی ترقی کا ہدف 3 فیصد ،تعلیمی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.5 فیصد ،صحت اور سماجی ترقی کا ہدف 4 فیصد ، صنعتی ترقی کا ہدف 4.3 فیصد، سرمایہ کاری کا ہدف 14.7 فیصد اورقومی بچتوں کا ہدف 14.3 فیصد مقرر کیا گیا ہے ۔
اے پی سی سی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں این 25 کیلئے 120 ارب روپے وزیر اعظم کی ہدایت پر مختص کئے گئے ہیں ۔گزشتہ سال ہمارا پی ایس ڈی پی 14 سو ارب تھا جو اب کم ہو کر 11 سو ارب روپے تک محدود ہو گیا، آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدے میں ہیں اس پر عملدرآمد کرنا ہے ، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آئندہ سال کیلئے ایکسپورٹ کا تخمینہ 35 ارب ڈالر ،ترسیلات زر کا39.5 ارب ڈالر مقرر کیا ہے ۔ سال 2022-23 سے اب تک ترسیلات زر میں 10 ارب ڈالر کا اِضافہ ہوا، اوورسیز پاکستانیوں نے گزشتہ دو سالوں میں 10 ارب ڈالرز کا اضافہ کیا، ہمیں مستقبل کیلئے جہاں مضبوط دفاع کی ضرورت ہے وہیں مضبوط معیشت کی بھی ضرورت ہے ، پانی کے ذخائر اورموسمیاتی تبدیلیوں کیلئے ہمیں چیلنجز کا سامنا ہے ، ہم دنیا کی کم ترین ٹیکس ادا کرنے والی قوم ہیں ۔ہمیں ملکر ٹیکس چوری کے خاتمے کیلئے ملکر کام کرنا ہو گا ۔تنخواہ دار طبقے نے چار سو ارب کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے ۔ تاجروں سے اس کے مقابلے میں آدھا بھی ٹیکس نہیں ملتا ۔ آئندہ مالی سال معیشت کے حجم کا 129.6 ٹریلین کا تخمینہ ہے ، آئندہ مالی سال کیلئے امپورٹ کا ہدف 65 ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے ۔جو منصوبے غیر ضروری تھے جن میں کوئی آگے بڑھوتری نہیں تھی ان کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا ہے ۔ حکومت نے 118 وفاقی منصوبوں کا خاتمہ کیا ہے جس سے 1 ہزار ارب روپے کی بچت ہو گی۔ دیامر بھاشا ڈیم آبی سکیورٹی کا منصوبہ ہے ، بلوچستان کو ترقی کی راہ کے ذریعے کھولنے کا منصوبہ ہے ۔ہائر ایجوکیشن کے ذریعے نوجوانوں کو آگے لایا جائے گا ۔جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں ان کی حتمی منظوری 5 جون کو نیشنل اکنامک کونسل میں دی جائے گی۔
اسلام آباد (کامرس رپورٹر) آئندہ مالی سال 2025-26 کیلئے 3795 ارب روپے کے قومی ترقیاتی بجٹ کی تجویز ہے ۔ وزیراعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 5 جون کو طلب کر لیا گیا۔ قومی اقتصادی کونسل 2795 ارب روپے کے صوبوں اور 1 ہزار ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دے گی۔ وزیرخزانہ محمداورنگزیب بجٹ پر وزیراعظم شہبازشریف کو بریفنگ دیں گے ، قومی اقتصادی کونسل میں آئندہ بجٹ کیلئے خدوخال کی منظوری دی جائے گی، بجٹ دستاویز کے مطابق آئند ہ مالی سال کاپنجاب کیلئے 1188 ارب روپے ، سندھ کیلئے 887 ارب، خیبرپختونخوا کیلئے 440 ارب روپے اور بلوچستان کیلئے 280 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ منظور ہوسکتا ہے ، ترقیاتی بجٹ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت شراکت داری کی بھی منظوری دی جائے گی، نیشنل اکنامک کونسل پانچ سالہ منصوبہ بندی کی بھی منظوری دے گی، جی ڈی پی گروتھ سمیت تمام معاشی اور بجٹ اہداف کی منظوری دی جائے گی۔ این ای سی اجلاس میں وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز، وزیراعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ، وزیراعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی شریک ہونگے ، اے پی سی سی میں جو وفاقی ترقیاتی فنڈز کی منظوری دے دی گئی۔
اس کیمطابق آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت 1 ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں، وزارتوں کیلئے 662 ارب روپے ، صوبوں اور سپیشل ایریاز کیلئے 245 ارب روپے ، این ایچ اے کیلئے 228 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ پاور ڈویژن کو آئندہ مالی سال 104 ارب روپے د ئیے جائیں گے ، دستاویز پلاننگ کمیشن کے مطابق واٹر ریسورسز ڈویژن کو آئندہ مالی سال 140 ارب روپے دئیے جائیں گے ، سپارکو کو 24 ارب روپے ، کیبنٹ ڈویژن کو 50 ارب 33 کروڑ روپے ملیں گے ، صوبوں اور سپیشل ایریاز کیلئے 245 ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں جس میں سے صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر 93 ارب 44 کروڑ روپے ، انضمام شدہ اضلاع کیلئے 70 ارب روپے سے زائد ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے 82 ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے ۔ فیڈرل ایجوکیشن اور پروفیشنل ٹریننگ کیلئے 19 ارب، ڈیفنس ڈویژن کیلئے 11 ارب مختص کیے گئے ۔ اے پی سی سی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے 42 ارب روپے ترقیاتی فنڈز کیلئے مختص کرنے تجویز دی، ریلوے ڈویژن کو 24 ارب روپے ، پلاننگ ڈویلپمنٹ کو 12 ارب روپے ،نیشنل ہیلتھ کو 12 ارب روپے ،وزارت داخلہ کو 10 ارب 90 کروڑ، وزارت اطلاعات کو 4 ارب 33 کروڑ ملیں گے ، رواں مالی سال پی ایس ڈی پی جی ڈی پی کا اعشاریہ 6 تک محدود رہ گیا۔
ملکی جی ڈی پی کا سائز آئندہ مالی سال بڑھ کر 1 لاکھ 29 ہزار ارب روپے سے زائد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا، رواں مالی سال پی ایس ڈی پی کے تحت 14 سو ارب روپے مختص کیے گئے تھے جس میں 3 ارب روپے کٹوتی کے بعد 11 سو ارب منظور کیے گئے تھے ، اس وقت ملک میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی تعداد 1071 ہے جن کی مجموعی لاگت 13 ہزار 427 ارب روپے ہے ، ان منصوبوں پر ابھی تک 3 ہزار 216 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں اور 10 ہزار 216 ارب روپے کا تھروفارورڈ ہے ،اس وقت تک رواں مالی سال کیلئے 620 ارب روپے کی اتھرائزیشن اور 5 سو ارب روپے کے لگ یوٹیلائزیشن ہو چکی ہے ۔ آئندہ مالی سال نئے منصوبوں پر 10 فیصد اور 90 فیصد پی ایس ڈی پی فنڈز جاری منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے ۔ وفاق نے صوبائی نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا ۔صوبوں میں بلوچستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ کیلئے پیسے ملیں گے ۔ نئے بجٹ میں سندھ کو 56 ارب روپے ، بلوچستان کو 120 ارب روپے ، خیبرپختونخوا کو 55 کروڑ روپے ملیں گے ، خیبرپختونخوانے 26 منصوبے دئیے تھے جس میں سے پی ایس ڈی پی میں کوئی منصوبہ شامل نہ ہو سکا ۔مشیرخزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ وفاق نے 90 فیصد مکمل منصوبوں کو بھی پی ایس ڈی پی سے نکال دیا۔