اس ملک نے اپنی تاریخ میں نہ اتنے سکیورٹی گارڈ دیکھے ہیں اور نہ جرائم کی اتنی وارداتیں ایک لطیفہ ہے کہ سردار جی طالب علموں کو غالب کی شاعری پڑھا رہے تھے۔ انداز ان کا اپنا ہی تھا۔ اُن کا مقولہ تھا کہ شعروں سے مطلب نکالنا پڑتا ہے اور اسی بات کو اپنے طالب علموں کو ذہن نشین کرانے کے لیے کہتے تھے لفظوں پر زور ڈالو اور پھر اُن میں سے مطلب نکالو۔ مثال کے طور پر انہوں نے یہ شعر پیش کیا۔ موت کا ایک دن معیّن ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ایک طالب علم نے سوال کیا کہ سر معیّن کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ سردار جی مسکرائے‘ بولے یہ شاعروں کے چکر ہوتے ہیں۔ عجیب عجیب لفظ شعروں میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ بس اُن لفظوں پر زور ڈالیں جن میں مطلب ہو۔ اب دیکھو نا! پہلے آتا ہے موت کا ایک دن۔ دن پر زور ڈالیں۔ اور پھر آتا ہے نیند کیوں رات بھر۔ یعنی رات۔ رات پر زور ڈالیں۔ شاعر کہتا ہے کہ موت تو دن کے وقت آنی ہے‘ نیند رات کو کیوں نہیں آتی۔ سمجھ آ گئی نہ شعر کی۔ سردار جی کا شعر کے مفہوم تک پہنچنے کا طریقہ شاعری سمجھنے کے لیے تو موزوں نہیں ہے اور ویسے بھی لطیفوں میں بیان کی گئی دانشمندی سے فائدہ اُٹھانا محال ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں سیاسی بیانات اور اُن کا پس منظر سمجھنے میں ایسی دانش فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ مثلاً اخبار میں ایک تازہ بیان چھپا ہے ہمارے بے مثل وزیر داخلہ رحمن ملک کا‘ انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’میری حکمتِ عملی نے طالبان کی نیندیں حرام کردی ہیں‘‘۔ ادھر پنجاب حکومت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ رحمن ملک مستند غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ اب لطیفے والے سردار جی کی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے اگر ہم مطلب نکالنے کے لیے لفظوں پر زور دیں تو بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ رحمن ملک نے جو کہ رانا ثناء اللہ کے بقول مستند غیر ملکی ایجنٹ ہیں‘ طالبان کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ مزید زور دیں تو واضح ہوتا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں طالبان کی نیندیں حرام کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے انہوں نے رحمن ملک کو مامور کیا ہوا ہے۔ دیکھیں سردار جی کے طریقے سے کتنی آسانی سے مطلب واضح ہو گیا۔ جن کا مسئلہ تھا کہ ان بیانات کا مطلب واضح ہو جائے ان کا مسئلہ تو حل ہو گیا مگر جو لوگ حقیقت جاننے کے خواہشمند ہیں ،اُن کے لیے بڑے سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ آیا طالبان کی واقعی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ جن طالبان کی طرف اپنے بیان میں محترم رحمن ملک نے اشارہ کیا ہے وہ پاکستانی طالبان ہیں جو ہمارے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں۔ افغان طالبان سے موصوف کے بیان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب جن طالبان کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں تو کیا وہ دہشت گردی کی کارروائیاں دن رات اس لیے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ رحمن ملک کی حکمتِ عملی کے سبب وہ اس قدر تکلیف میں ہیں کہ نیند تک سے محروم ہیں اور جن اوقات میں سویا جاتا ہے اُن کو بھی وہ دہشت گردی پر لگا رہے ہیں۔ ہزارہ برادری کے لوگوں کے حالیہ المناک سانحے لشکر جھنگوی نام کی تنظیم نے کیے ہیں‘ جو طالبان کا حصّہ ہے۔ وزیر داخلہ کی حکمتِ عملی سے جن لوگوں کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں ،کالعدم لشکر جھنگوی والے ان میں شامل ہیں۔ مگر اُن کی تو کوئی نیندیں اُڑی نہیں ہوئیں۔ نیندیں تو ان بیچاروں کی غائب ہیں جن کے نو عمر بچے قبروں میں جا چکے۔ جن کی مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ایک لحظے میں بارود کی نذر ہو گئیں۔ جن کے جوان اور بزرگ اچانک اُن کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے علاوہ جن لوگوں کی نیندیں حرام ہیں وہ عام پاکستانی ہیں۔ اس ملک نے اپنی تاریخ میں نہ اتنے سکیورٹی گارڈ دیکھے ہیں اور نہ ہی جرائم کی اتنی وارداتیں۔ یہ بدامنی ہے جس نے ہماری قوم کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں اور اس بدامنی کو دُور کرنا ہمارے وزیر داخلہ کی اوّلین ذمہ داری ہے مگر وہ ایسے لوگوں کی نیندیں حرام کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں جنہوں نے ہمارا جینا ہی حرام کیا ہوا ہے۔ (آج کل بدامنی کے بجائے بے امنی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ زبان کے اعتبار سے ہو سکتا ہے بے امنی کہنا اور لکھنا زیادہ مناسب ہو مگر جو کچھ ہو رہا ہے اس کو میری رائے میں بدامنی ہی کہنا اور لکھنا چاہیے)۔ اب ہم آتے ہیں محترم رانا ثناء اللہ کے بیان کی طرف جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ رحمن ملک مستند غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ نتیجہ کیسے نکالا ہے۔ ہم تو صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ کس ملک کے ایجنٹ ہیں۔ رحمن ملک کا لندن میں بہت قیام رہا ہے۔ وہاں مبینہ طور پر ان کا کاروبار بھی ہے۔ تو غالباً یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ رحمن ملک پر حکومت برطانیہ کا مستند ایجنٹ ہونے کا الزام عاید کیا جا رہا ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو رانا ثناء اللہ کو اس الزام کا کوئی واضح ثبوت پیش کرنا چاہیے کیونکہ بظاہر رحمن ملک کا کسی بھی ملک کا ایجنٹ ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ہمارے وزیر داخلہ ہیں۔ رنگ برنگی ٹائیاں ضرور لگاتے ہیں۔ اب رنگ برنگی ٹائیاں لگا کر تو مستند ایجنٹ نہیں بن سکتے۔ ویسے بھی اب تو ملک صاحب مکمل پاکستانی ہیں۔ برطانیہ کی شہریت بھی چھوڑ چکے ۔رہ جاتی ہے یہ بات کہ رحمن ملک کے لندن میں مبینہ کاروبار اور ان کے وہاں آنے جانے سے رانا ثناء اللہ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہاں کی حکومت کے ایجنٹ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ محترم نوازشریف کا بھی خاندانی کاروبار یا اس کا کچھ حصّہ مبینہ طور پر برطانیہ میں ہے اور وہ بھی اس ملک میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بہت سے سیاسی خاندانوں کا کاروبار مغربی ملکوں میں ہے اور وہاں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں۔ رانا آخر کس کس کو مستند غیر ملکی ایجنٹ کہیں گے۔ لہٰذا رحمن ملک کو مستند غیر ملکی ایجنٹ کہنا رانا ثناء اللہ کا انتہائی غیر ذمّہ دارانہ بیان ہے بالکل اسی طرح جیسے رحمن ملک کا یہ بیان کہ اُن کی حکمتِ عملی نے طالبان کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ رحمن ملک اور رانا ثناء اللہ دونوں اہم منصبوں پر فائز ہیں۔ یہ ملک اور اس کے عوام اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کچھ کہنے سے پہلے‘ یہ دھیان میں رکھیں گے کہ وہ جو کچھ کہنے جا رہے ہیں اس کو سُن کر لوگ کیا سوچیں گے۔ میں نے جان بوجھ کر دونوں کے وہ بیانات اس کالم میں شامل کیے ہیں جو ایک دوسرے کے الزامات کا جواب نہیں ہیں۔ حالانکہ بیانات کے ذریعے دونوں کی لڑائی سب کے علم میں ہے۔ میں نے محض وہ بیانات منتخب کیے ہیں جن کی کوئی منطقی بنیاد موجود نہیں ہے۔ باقی رحمن ملک اگر یہ باور کرتے ہیں کہ اُن کی حکمتِ عملی سے طالبان کی نیندیں اُڑ چکی ہیں تو فی الوقت یہ بات اپنے تک ہی رکھیں کیونکہ ایسا ماننے کو کوئی تیار نہیں ہے اور دوسری طرف رانا ثناء اللہ کو اگر یقین کامل ہے کہ رحمن ملک مستند غیر ملکی ایجنٹ ہیں تو اس بات کو بھی وہ اس وقت تک اپنے تک ہی محدود رکھیں جب تک وہ اس کا کوئی قابلِ یقین ثبوت نہیں پیش کر پاتے۔ ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بیان بازی بھلے جاری رکھیں جس کی کہ انتخابات میں اور بھی زیادہ ضرورت ہوگی مگر ایسے بیانات سے گریز کریں جن سے خود ہی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔