ہمارے ہاں کتوں سے نفرت کرنے والے تعداد میں ان لوگوں سے بہت زیادہ ہیں جو پالتوکتے رکھتے ہیں اور پھر ان سے محبت بھی کرتے ہیں۔ اردو کے بے مثل مزاح نگار پطرس بخاری نے ’’کتے‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہوا ہے اس میں کتوں سے خوف اور نفرت کا اظہار تو ملتا ہے مگر کتوں سے محبت کا بالواسطہ ذکرتک موجود نہیں۔ ہمارے کلچر میں کتے کی جو حیثیت ہے وہ پطرس کے اس مضمون سے مکمل طورپر واضح ہوجاتی ہے اور ان کے مضمون کی ادبی حیثیت تو اس قدر مسلّم ہے کہ ایک دوسرے مزاح نگار نے کتوں پر مضمون لکھتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ کتوں کے پیدا کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ پطرس بخاری ان پر اپنا معرکہ آرا مضمون لکھے اور اب ان کے بقول چونکہ وہ مقصد پورا ہوچکا ہے لہٰذا کتوں کی نسل ہی کو ختم کردینا چاہیے۔ مغربی ممالک میں جانوروں اور خاص طورپر کتوں سے محبت کے ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور دوسری طرف ہمارے ہاں لوگ کتوں کی جو تذلیل کرتے ہیں وہ مغربی ملکوں کے باشندے بڑی مشکل سے برداشت کرتے ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پیس کور کا ایک نظام متعارف کروایا تھا جس کے تحت امریکی نوجوان دنیا کے دیگر ملکوں میں جاکر رضا کارانہ کام کرتے تھے۔ افغانستان اور پاکستان آنے والے پیس کور کے کارکن یہاں کتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر اس قدر نالاں تھے کہ ان میں کچھ پروگرام کو درمیان میں چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے۔ ہمارے ہاں کتوں کی اتنی پذیرائی کیوں نہیں جتنی مغربی دنیا میں ہے حالانکہ کتے کی وفاداری تو یہاں بھی اتنی ہی ہے جتنی دنیا میں کہیں اور۔ اکثر اس کی یہ دلیل سننے میں آتی ہے کہ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ جس گھر میں کتاہو وہاں فرشتے نہیں آتے۔ ہمارے ہاں جو لوگ کتا گھر میں رکھنے کے حامی ہیں وہ بھی ایسا کرنے کے حق میں مذہبی دلائل نکال لیتے ہیں۔ کوئی اصحابِ کہف کے کتے کا حوالہ دیتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ جو کام ہم نے کرنا ہوتا ہے اس میں ہم شریعت کو درمیان میں آنے ہی نہیں دیتے۔ سود کے بارے میں احکامات دیکھ لیں۔ غیبت ، جس تفصیل سے ہم لوگ کرتے ہیں شاید ہی کوئی دوسری قوم کرتی ہو۔ غیبت کے بارے میں واضح حکم ہے کہ یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں بہت سے ایسے کام دن رات ہوتے ہیں جن کی موجودگی میں فرشتے وہاں آنے سے گریز ہی کریں گے تو پھر کتوں ہی کے معاملے میں ایسے دلائل کیوں سامنے آتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جو کام مغربی دنیا میں کتے کرتے ہیں وہ کام ہم انسانوں سے لے لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک دفتر کے ڈائریکٹر کا رویہ درجہ چہارم کے ملازمین کے ساتھ کیسا ہوتا ہے۔ دوسری طرف دوچار نچلے درجے کے ملازمین جو خوشامدی ہوتے ہیں وہ صاحب کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ بھلا ان کی چاپلوسی‘ خوشامد اور بظاہر وفاداری کا کوئی کتا مقابلہ کرسکتا ہے! اسی طرح اگر آپ کسی نام نہاد پیر صاحب کو دیکھیں۔ خاندانی طورپر گدی نشین ہیں اور ان کے ڈیرے کے باہر جو گہرا سرمہ لگائے نشئی قسم کے مریدین بیٹھے ہوتے ہیں کیا ان لوگوں کی پیر صاحب کے لیے وفاداری اور جانثاری کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے! پیر صاحب کو اس کام کے لیے جب انسان نما جانوردستیاب ہیں تو انہیں اصل جانور کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں اگر پیر صاحب کو خاندانی وقار کے لیے اعلیٰ نسل کے کتے پالنے کا شوق ہوتو وہ الگ بات ہے مگر اس کا موازنہ مغربی دنیا میں پائی جانے والی جانوروں کی محبت سے نہیں ہوسکتا۔ کسی جاگیردار کو دیکھ لیں۔ جو نقشہ پیر صاحب کے درپر ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ انہیں انسانوں کی وفاداری دستیاب ہوتی ہے۔ جاگیردار کے خاندان کے کسی فرد کو سزا ہوجائے تو ان کے وفادار ، مجرم کی جگہ سزا تک بھگت لیتے ہیں۔ مغرب میں بھلا کتا ایسا کام کرسکتا ہے۔ ہمارے دوست کا استدلال ہے کہ اس صورت حال میں بھلا کتوں کی کیسے دال گل سکتی ہے۔ اشرف المخلوقات اگر جانوروں کی سطح پر آکر جانوروں سے مقابلے کرنے لگیں تو لازمی بات ہے کہ جانور ہی ہاریں گے۔ لہٰذا کتوں کا ہمارے ہاں کوئی مستقبل نہیں۔ میں نے اپنے دوست سے عرض کی کہ کیا صورت احوال میں تبدیل بھی ممکن ہے یا نہیں ۔ بولے :ہاں، جس طرح مغرب میں ہرکوئی‘ چاہے غریب ہو یا امیر‘ چھوٹا ہو یا بڑا‘ کھل کر پوچھتا ہے کہ یہ میں کیوں کروں؟ یہ پالیسی کیوں بنائی گئی ہے‘ میں کیوں آپ کی بات مانوں جبکہ بات غلط معلوم ہورہی ہے ؟ اسی طرح جب ہمارے ہاں یہ خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے اور وفاداریاں نبھانے والے بھی اپنے مالکوں سے ایسے سوال کرنے لگیں گے اور انجام سے بے نیاز ہوکر اس پر ڈٹ جائیں گے تو پھر یہ ممکن ہو جائے گا۔ پھر خود ہی کہنے لگے ایسا بھلا ہمارے ہاں ہو جائے گا؟ نہیں ہوسکتا۔ اب دیکھیں نا‘ ہمارے ہاں اکثر سیاستدان بھی ایسے وفاداروں کے سہارے سیاست کررہے ہیں جو خوشامداورچاپلوسی کے شہنشاہ ہوتے ہیں۔ یہی لوگ انتخابات میں ہمارے روایتی سیاستدانوں کو کامیاب کروانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ہماری بدقسمتی کہ ان وفاداروں میں وہ سرکاری لوگ بعض اوقات شامل ہوجاتے ہیں جو چاہیں تو انتخابی نتائج میں دھاندلی بھی کرسکتے ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ پھر عمران خان کا کیا ہوگا؟ اس نے تو اصل کتے پال رکھے ہیں اور سنا ہے کہ وہ روایتی خوشامدی لوٹوں کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ کہنے لگے ہمارے معاشرے میں جو انسانی شکل میں موجود جانوروں جیسی وفاداری نبھانے والوں کا سہارا نہیں لیتا اور محض اصلی کتوں پر ہی قناعت کرلیتا ہے اس کو میرے خیال میں کامیابی کے لیے کسی معجزے کا ہی انتظار کرنا چاہیے۔