"ARC" (space) message & send to 7575

تاریخ کا صحیح فہم

جو بات ایک مرتبہ زبان زد عام ہوجائے پھر بھلے سچائی کچھ بھی ہو وہ بات اسی طرح رہتی ہے جس طرح وہ عام لوگوں کی زبان پر آگئی تھی۔ ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے کہ حقیقت کچھ تھی مگر تاریخ کا حصہ کچھ اور باتیں بن گئیں اور اب وہی باتیں حقیقت تسلیم ہوتی ہیں ۔ مذاہب عالم کی تاریخ ایسی غلط فہمیوں سے پُر ہے مگر میں ان کے ذکر سے گریز کروں گا کیونکہ ہمارے ہاں لوگ مذاہب کے حوالے سے غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ذہنی طور پر تیار دکھائی نہیں دیتے ،مذہبی لٹریچر جیسا بھی ان تک پہنچا ہے اسی کو سند مان لیتے ہیں۔ مذاہب سے قطع نظر تاریخ عالم بھی ایسی غلط فہمیوں سے مبرا نہیں ۔مثال کے طور پر کس یقین کے ساتھ ہم بیان کرتے ہیں کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا۔‘‘ انگریزی کے جس جملے کا یہ ترجمہ ہے وہ ہے:Nero Fiddles while Rome burnedاب Fiddle تو وائلن قسم کے ساز کو کہتے ہیں بانسری کو نہیں ۔ یہ تو ہوگئی ہماری غلطی، اس کو چھوڑیے۔ اب چلتے ہیں مغربی دنیا کی طرف جہاں سے بات چلی تھی کہ روم جل رہا تھا اور نیرو وائلن بجا رہا تھا۔ ان کے اپنے محققین یہ کہتے ہیں کہ نیرو کے دورِ حکومت کے کم از کم گیارہ سو برس بعد وائلن یا Fiddle ایجاد ہوئی۔ اس تحقیق کے باوجود یہ محاورہ انگریزی میں اب تک مستعمل ہے جیسے ہمارے ہاں زبان زد عام ہے۔ اب آگے چلتے ہیں ۔نیرو کے دور حکومت میں روم میں لگنے والی آگ پر تحقیق کرنے والے مغربی دانشور کہتے ہیں کہ نیرو کو موسیقی کا شوق تو تھا مگر وہ رباب قسم کا کوئی ساز بجایا کرتا تھا۔ ایک سکالر کا کہنا ہے کہ نیرو خود گانے کا بھی شوقین تھالیکن بہت برا گاتا تھا اور اپنے سپاہیوں کو سامنے کھڑا کرکے انہیں زبردستی اپنا گانا سنایا کرتا تھا۔ نیرو کے دور میں روم میں جو آتشزدگی ہوئی اس سے شہر کا دو تہائی حصہ جل کر راکھ ہوگیا تھا۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ یہ آگ نیرو نے خود لگوائی تھی لیکن تحقیق کرنے والوں کو اس کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ ایک محقق کے مطابق نیرو روم جلتا دیکھ کر دکھی ہوا اور رباب قسم کا ساز بجاتے ہوئے ٹرائے کا مرثیہ گانے لگاتھا۔ اسی محقق نے یہ بھی کہا کہ اس دور میں جو عینی شاہد ہونے کے دعوے دار تھے وہ اس بات کے قائل نہیں تھے ۔اب آپ جتنا اس کو کریدتے جائیں گے بات پھیلتی جائے گی ،مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اب ہمیں کسی ایسے صاحب اقتدار کا ذکر کرنا ہو جو اپنے فرائض چھوڑ کر اپنی عیاشیوں میں مصروف رہے تو ہم کہیں گے کہ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ بادی النظر میں اس امر کو تاریخی حقیقت ہی سمجھا جائے گا کہ نیرو نام کا رومن شہنشاہ روم کو آگ لگوا کر اس منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا اور بانسری بجاتا رہا ۔ \"Stray Reflections\" کے عنوان سے علامہ اقبال کی ایک نوٹ بک اقبال اکادمی نے شائع کی ہوئی ہے جس کی تدوین ڈاکٹر جاوید اقبال نے کی۔ اس نوٹ بک میں علامہ اقبال نے مختلف موضوعات پر مختصراً اپنے خیالات تحریر کیے ہوئے ہیں۔ تاریخ کا صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے علامہ اقبال نے بہت احتیاط سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاریخ اصل میں انسانی محرکات کو سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے اور روزمرہ زندگی میں ہمارے قریبی دوست اور ساتھی کن وجوہ اور محرکات کی بنیاد پر کوئی کام کرتے ہیں ،ہم تو ان کوبھی اکثر صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے۔ صدیوں پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان کی سوچ کے پیچھے محرکات کو سمجھنا تو اور بھی مشکل کام ہے۔ لہٰذا احتیاط لازم ہے۔ گویا ہونا تو یہ چاہیے کہ تاریخی واقعات کو جانچ پرکھ کے بعد ہی قبول کیا جائے مگر اتنا وقت کس کے پاس ہے ۔لہٰذا جس طرح ہم کمپیوٹر میں Cut اور پھر Paste سے کام چلاتے ہیں اسی طرح جو بات چلتی آرہی ہو اس کو یا تو اسی طرح آگے چلا دیا جاتا ہے اور اگر کسی کو وہ بات پسند نہ ہو وہ اسے اپنی من پسند کے مطابق بنا کر آگے چلا دیتا ہے۔ محکوم قومیں جب آزاد ہوتی ہیں تو وہ ماضی کی اپنی تاریخ کو آہستہ آہستہ بدل دیتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال بھارت ہے جہاں ماضی کے تاریخی واقعات کی نئی نئی توجیہات پیش ہورہی ہیں ۔دوچار عشروں بعد وہاں لکھی گئی تاریخ پڑھ کر ممکن ہے قاری کو یہ گمان ہو کہ بھارت کے لوگ اپنی مرضی سے پہلے مسلمانوں کے محکوم ہوئے پھر انگریزوں کے۔ ہماری اپنی تاریخ بھی حب الوطنی سے بھری پڑی ہے۔ بعض مورخ سائنسی بنیادوں پر تاریخ مرتب کرتے ہیں مگر ان کے بیان کردہ حقائق کو اکثر پذیرائی نہیں ملتی اور لوگ اس تاریخ کو اپناتے ہیں جو ان کے من کو بھاتی ہے۔ میں نے اسی کالم میں ٹرائے کے مرثیے کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی ماضی کے حقائق بدلنے کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ ٹرائے ایک شہر تھا جس کا ذکر یونانی شاعر ہومر (Homer) کی ایک رزمیہ نظم میں ملتا ہے جس میں پیلس آف ٹرائے کا معروف قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یونانی فوجو ںنے ٹرائے پر حملہ کرکے فتح حاصل کی تھی اور اس شہر کو نیست و نابود کردیا تھا۔ اب سوال پید ا ہوتا ہے کہ نیرو تو رومن بادشاہ تھا ،اسے ٹرائے شہر کا مرثیہ پڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیوں اس کو روم جلتا دیکھ کر یہ یاد آیا کہ ٹرائے بھی اسی طرح جلا تھا۔ رومن ایمپائر میں آگسٹن سیزر کا دور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آگسٹن نے جب سلطنت اچھی طرح مستحکم کرلی تو اسے اس بات کا احساس ہونے لگا کہ ان کے خاندان کی کوئی قابل ذکر تاریخ نہیں ہے۔ اس دور میں یونان تو دب چکا تھا مگر یونان کے شاہی خاندان اور ان کے جانبازوں کے تذکرے ہومر کی نظموں میں موجود تھے۔ آگسٹن نے اپنے دربار میں شاعر ورجل (Virgil) کے سامنے اس محرومی کا ذکر کیا تو اس نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس نے کہا یونانیوں کی لڑائی ہوئی ٹرائے والوں سے۔ ٹرائے والے ہار گئے تھے مگر میں ایک داستان لکھتا ہوں جس میں پیش کروں گا کہ آپ کے جد امجد ٹرائے سے زندہ بچ کر بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور پھر ان کے فرضی شجرے کو آپ کے شجرے سے ملادوں گا۔ آگسٹن نے خوشی خوشی اس بات کی اجازت دیدی اور یوںورجل نے اپنی شہرہ آفاق رزمیہ نظم Aeneid تحریر کی جس کا ہیرو Aeneas ٹرائے میں زندہ بچ کر آخر کار اٹلی کے ساحل تک پہنچتا ہے اور روم کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ مغربی ادب میںورجل کی تحریروں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے یہاں تک کے بعد ازاں دانتے (Dante )کی مشہور زمانہ نظم Divine Comedy میں ورجل کو مصنف اپنے رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔ آگسٹن کے بعد آنیوالے رومن بادشاہ ورجل کی نظم میں بیان کی گئی باتوں کو حقائق سمجھتے تھے، Aeneas کو اپنا جد امجد کہتے تھے اور ٹرائے کو اپنا پرانا مسکن باور کرکے جب کہیں تباہی دیکھتے تو ان کو ٹرائے کی تباہی یاد آجاتی تھی۔ اسی وجہ سے نیرو کے بارے میں کہا گیا کہ وہ روم کی تباہی دیکھ کر ٹرائے کا مرثیہ گا رہا تھا۔ یعنی رومن تاریخ کی بنیاد فکشن پر رکھی گئی تھی۔ مغربی دنیا کو بظاہر اس فکشن سے کوئی غرض نہیں ،وہ تو اپنے آپ کو رومن تہذیب کے وارث کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں