لارڈ میو (Mayo) ہندوستان میں قتل ہونے والے واحد وائسرائے تھے۔ ان کو 1872ء میں شیرعلی آفریدی نام کے ایک پٹھان نے چاقو کے وار سے اس وقت قتل کردیا جب وہ جزائر انڈیمان کے دورے پر تھے۔ شیرعلی آفریدی کو انگریزوں نے قید میں ڈال دیا تھا۔ وہ اس کو ناانصافی سمجھتا تھا اور غالباً اس کے ساتھ ناانصافی ہی ہوئی جس کا بدلہ لینے کے لیے اس نے تہیہ کیا تھا کہ وہ کسی بڑے انگریز افسر کو قتل کردے گا۔ بلکہ اس نے دوانگریز افسروں کو مارنے کی ٹھانی تھی مگر کامیاب وائسرائے کو مارنے میں ہوا۔ جزائر انڈیمان کو کالا پانی بھی کہا جاتا ہے اور برطانوی دور میں اکثر عمرقید پانے والے قیدیوں کو کالا پانی بھیج دیا جاتا تھا۔ شیرعلی پرالزام تھا کہ اس نے ایک خاندانی جھگڑے کے دوران دن دہاڑے اپنے ہی ایک حیدرنامی رشتے دار کو قتل کردیا ہے۔ اگرچہ شیرعلی نے صحت جرم سے انکار کیا مگر عدالت نے اس کو سزائے موت دے دی۔ بعدازاں اس نے عدالت کے فیصلے خلاف اپیل کی تو اس کی سزا کم کرکے عمرقید میں تبدیل کردی گئی اور اس طرح وہ جزائر انڈیمان پہنچا۔ یہاں اس کا طرز عمل اچھا دیکھ کر وہاں موجود حکام نے اس کو Port blairپر حجام کا کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ لارڈ میو کو جزائر انڈیمان کے Port Blairپر ہی شیر علی نے قتل کرکے برٹش سرکار کو ہلاکے رکھ دیا تھا۔ برطانوی حکام کی کسی بھی رپورٹ میں اشارہ تک نہیں ملتا تھا کہ شیرعلی ایسا اقدام کرسکتا تھا۔ انسان کے دل میں کیا ہوتا ہے اس تک صرف پروردگار کی رسائی ہوتی ہے۔ شیرعلی آفریدی کا تعلق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تھا۔ آج کل خیبرایجنسی کچھ اور وجوہ کی بناپر خبروں کا موضوع بنی ہوئی ہے اور اس کا نام بار بار میڈیا میں آنے کی وجہ ہی سے مجھے اپنے حافظہ میں گم یہ واقعہ یاد آیا ہے۔ شیرعلی تاج برطانیہ کا وفادار سپاہی رہا تھا۔ 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھارتی سپاہیوں کی معروف زمانہ بغاوت جوجنگ آزادی بھی کہلاتی ہے‘ اس دوران میں شیرعلی نے برطانوی فوجیوں کا ساتھ دیا تھا۔ بعدازاں پشاور میں Cavalry Trooperکے طورپر خدمات انجام دینے کے صلے میں اس کو گھوڑا، پستول اور سند انعام میں ملی۔ ایک خدمت گزار ملازم کے طورپر برطانوی افسروں میں شیرعلی کی بہت اچھی شہرت تھی۔ اتنی خدمت کرنے کے بعد جب شیرعلی کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو اس کو یقینا یہ توقع رہی ہوگی کہ اس نے صحت جرم سے جو انکار کیا ہے اس کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ مگر چونکہ ایسا نہ ہوا تو انگریزوں کی جتنی اس نے خدمت کی تھی وہ تمام کی تمام نفرت میں تبدیل ہوگئی اور اس نے اپنے خلاف ناانصافی کا بدلہ لینے کے لیے وائسرائے لارڈ میو کو قتل کردیا۔ لاہور میں میو ہسپتال ، میو اسکول آف آرٹس جو آج کل نیشنل کالج آف کامرس کہلاتا ہے اور میو روڈ جو آج کل علامہ اقبال روڈ ہے‘ اسی انگریز وائسرائے لارڈ میو کے نام پر ہیں۔ 1857ء کے واقعات میں کچھ ان لوگوں کو بھی انگریزوں نے عمر قید کی سزا سنائی تھی جن کے بارے میں یہ ثبوت ملے تھے کہ وہ جہادیوں کے حامی تھے۔ انگریزوں کے ساتھ براہ راست لڑنے والوں یا ان کو شہ دینے والوں کو تاج برطانیہ نے موت کی سزائیں سنائی تھیں۔ ان میں محمد حسین آزاد کے والد شامل تھے جو اس دور میں دہلی میں ایک اخبار نکالتے تھے۔ 1857ء میں بغاوت تو انگریزوں کی فوج میں شامل بھارتی سپاہیوںنے کی تھی مگر بعدازاں وہابی فکر سے متاثر لوگوں نے انگریزوں کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد کردیا۔ 1857ء میں جب حالات پر برطانوی راج کا مکمل کنٹرول ہوگیا تو عدالتیں لگ گئیں۔ یہاں سے جن لوگوں کو محض جہادیوں سے ہمدردی رکھنے کی بناپر عمر قید سنائی گئی تھی‘ وہ لوگ اس وقت جزائر انڈیمان میں قید تھے جب شیرعلی نے یہ قتل کیا تھا۔ آج کل کازمانہ ہوتا تو شیر علی کا اقدام قتل ان نام نہاد جہادی قیدیوں کے حساب میں پڑ جانا تھا اور تمام مغربی میڈیا نے اس کو القاعدہ کی کارروائی قرار دے دینا تھا مگر وہ دور مختلف تھا اور پھر انگریزوں کی تفتیش امریکنوں کی نسبت کافی انصاف پسندانہ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس قتل کی جو تفتیش ہوئی اس میں وہاں موجود مبینہ جہادی عناصر کو بری الذمہ قرار دیا گیا اور اس کو محض شیرعلی کا اپنا ذاتی فعل قرار دیا گیا۔ شیرعلی کا کہنا تھا کہ وہ دو گورے افسروں کو قتل کرنا چاہتا تھا اس ناانصافی کے بدلے میں جو اس کے ساتھ ہوئی تھی۔ ایک وائسرائے اور دوسرا جزائر انڈیمان کا سپرنٹنڈنٹ۔ شیرعلی نے تمام دن Port Blairپر وائسرائے کا انتظار کیا اور شام کو کہیں جاکر اس کو موقع مل سکا۔ قتل کرنے کے بعد اس نے وہاں موجود فوٹو گرافروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی تصویریں اتروائیں۔ ظاہر ہے‘ فوٹو گرافر تو وہاں وائس رائے کے دورے کی کوریج کے لیے گئے ہوں گے۔ اس دور میں تو یہ کہانی ختم ہوئی اور شیرعلی کو وائسرائے ہند کے قتل کے جرم میں پھانسی دے دی گئی مگر آج کے دور میں اس گڑے مردے کو آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی ایک سکالر ہیلن جیمز (Helen James)نے اکھاڑا ہے اور موصوفہ نے اس دور میں ہونے والی تفتیش سے متعلق کاغذات کا جائزہ لے کر ایک سوال کھڑا کیا ہے کہ کیا لارڈ میو کا قتل جہاد کا پہلا اقدام نہ تھا؟ پھر جواب میں شبہات پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ ہے آج کل مغربی دنیا کا مائنڈ سیٹ۔ تقریباً زبردستی ایک ایسے واقعے کو جہاد سے جوڑا جارہا ہے جس میں ایک خدمت گزار پٹھان کے ساتھ پہلے ناانصافی ہوتی ہے اور پھر وہ اپنی قبائلی روایات کے مطابق اس کا بدلہ لیتا ہے۔ جولوگ پٹھانوں کو جانتے ہیں ان کی سمجھ میں تو یہ بات آجاتی ہے جو نہیں جانتے ان کی ہرپالیسی فیل ہوجاتی ہے اور اس کا واضح مظاہرہ افغانستان میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مغرب کے اس مائنڈ سیٹ کا تعلق ہے کہ ہر اقدام کو جہاد سے جوڑ دو‘ اس کا کوئی نتیجہ آج تک مثبت نہیں نکلا اور نہ آئندہ نکلنے کی توقع ہے۔