"ARC" (space) message & send to 7575

رجحان

ملالہ یوسف زئی کو گولی مارنے کے بعد پاکستانی طالبان نے جب شادیانے بجانے شروع کیے کہ یہ’’نیک‘‘ کام انہوں نے کروایا ہے تو پاکستان میں کافی لوگ‘ جو ان لوگوں سے تھوڑی بہت خفیہ سی ہمدردی رکھتے تھے‘ ان سے باغی ہوگئے۔ اس کے بعد طالبان کے ترجمانوں اور اس تحریک کے ترجمان رسالوں میں مذہبی نقطہ نظر سے یہ وضاحتیں ہونے لگیں کہ اسلام میں دشمن کا ساتھ دینے والا بھلے بوڑھا ہو یا بچہ اس کا قتل جائز ہے۔ پاکستانی لوگ اس پر بھی قائل نہ ہوئے اور طالبان کے خلاف نفرت بڑھتی رہی تاوقتیکہ مغربی ملکوں نے جب بلند بانگ انداز میں ملالہ کی پذیرائی شروع کی تو پھر کہیں جا کر طالبان کی سنی گئی اور ان کے خلاف نفرت میں اضافے کا عمل رکتا دکھائی دینے لگا۔ اس کے بعد ملالہ برطانیہ لے جائی گئی اور پھر وہیں کی ہو کر رہ گئی۔ طالبان نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ مغربی دنیا کی بیٹی بن جانے کے بعد ملالہ کا پاکستانیوں سے ناتا کمزور ہوگیا اور طالبان کے خلاف نفرت کی لہر جو ملالہ پر حملے سے بہت موثر انداز میں شروع ہوئی تھی بالآخر ختم ہوگئی۔ کاش گولی لگنے کے بعد ملالہ پاکستان میں ہی رہتی۔ یہیں صحت یاب ہوتی اور مغربی دنیا اس واقعے پر معمول کی مذمت کرکے ہم پاکستانیوں کو موقع دیتی کہ ہم ملالہ کو طالبان کے خلاف نفرت کی ایک جیتی جاگتی علامت کے طور پر اپنے درمیان زندگی گزارنے دیتے۔ اس طرح ممکن تھا کہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں اس ضمن میں ایسے اتفاق رائے کی طرف بڑھتیں‘ جس کی ہماری افواج کو ایک فیصلہ اقدام کرنے کے لیے سخت ضرورت ہے۔ مگر غالباً ابھی ہم نے اور بہت دکھ دیکھنے ہیں۔ آج کل جو تباہی ان لوگوں نے خاص طور پر خیبر پختونخوا میں مچائی ہوئی ہے اس پر تو ہر قسم کا تبصرہ بھی کم پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ کچھ تبصرے ان طالبان کے بارے میں شب و روز ہوتے رہتے ہیں۔ ایک صاحب‘ جو شام کو میرے ساتھ باغ میں سیر کرتے ہیں‘ ایک روز کہنے لگے: بھئی افغانستان میں طالبان کی جدوجہد کی منطق تو باآسانی سمجھ میں آجاتی ہے، اگر بلوچستان میں ناراض لوگ آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے فساد پھیلا رہے ہیں تو بھلے ہم ان کو گمراہ کہیں لیکن یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان لوگوں کا مقصد کیا ہے لیکن یہ پاکستانی طالبان جو کچھ کررہے ہیں اس کی آخر کوئی منطق تو ہونی چاہیے۔ میں نے کہا :سنا ہے شریعت کے نفاذ کے لیے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کہنے لگے: چلو اگر مان لیں کہ یہ لوگ پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرکے شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں تو کیا ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ لوگ اگر قبائلی علاقوں کی علیحدگی کی کوئی تحریک چلا رہے ہوں تو بھلے یہ علیحدگی ممکنات میں سے نہ ہو‘ تب بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی کارروائیوں کے پیچھے کوئی منطق ہے۔ لیکن اب یہ لوگ جو کچھ کررہے ہیں وہ ایسا ہی ہے کہ دنیا میں کوئی ملک اُٹھے اور دیگر تمام ملکوں میں اس مطالبے کے ساتھ دھماکے کرنے لگے کہ پوری دنیا کی حکومت اس ملک کو دے دی جائے۔ کہنے لگے :ان لوگوں کی کارروائیوں میں بے گناہ لوگوں کے مارے جانے اور زخمی ہونے سے صورتحال المناک ہوجاتی ہے وگرنہ یہ لوگ جو کچھ کررہے ہیں وہ انتہائی اذیت ناک ہے۔ جس طرح کی گفتگو میرے ساتھ شام کی سیر کرنے والے ساتھی نے کی‘ ویسی دکھ بھری بات چیت اس مسئلے پر آپ بھی سنتے ہوں گے۔ شاید کرتے بھی ہوں کیونکہ یہ مسئلہ ہمارے ملک کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ بن چکا ہے‘ لہٰذا کسی کی سوچ ایک طرف کو جاتی دکھائی دیتی ہے تو دوسرے کی دوسری طرف۔ کٹر دینی رجحان کے حوالے سے طالبان ایک خاص قسم کی مذہبی فکر رکھتے ہیں اور اسی فکر کو انہوں نے جامد اور ناقابل حرکت شے بنا کر رکھا ہوا ہے۔ القاعدہ ان کی فکری رہنما ہے اور جو کوئی ان کے نقطہ نظر سے ٹکرا جائے یہ طالبان اس کا حشر نشر کرنے کی خاطر میدان عمل میں نکل آتے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں رومن کیتھولک چرچ کے کرتا دھرتا اپنی بات نہ ماننے والوں کو زندہ جلا دیا کرتے تھے۔ 1600ء میں Giordano Bruno نام کے ایک سائنس دان نے جب یہ کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو چرچ کے پادریوں نے روم میں اس سائنسدان کو زندہ جلوا دیا۔ پاکستان بھی جو لوگ دورِ جدید کی مسیحائیوں کی بات کرتے ہیں پاکستانی طالبان اپنے ان مبینہ دشمنوں کو زندہ جلانے سے بھی زیادہ المناک طریقے سے قتل کرتے ہیں۔ یہ کسی معصوم نوجوان کی پہلے برین واشنگ کرکے معنوی طور پر اس کی شخصیت کو قتل کرتے ہیں اور پھر اس کو خودکش جیکٹ پہنا کر اپنے دشمنوں پر حملہ کرواتے ہیں۔ جس کے نتائج زندہ جلوانے سے کئی گنا زیادہ المناک ہوتے ہیں۔ طالبان ایسی ان گنت وارداتیں کر چکے ہیں۔ رومن کیتھولک پادری اپنے قبضے میں آئے ’’دشمن‘‘ سے اپنی مرضی کی تحریر پر دستخط کروا کے پھر بھی اس کو قید ہی میں رکھتے ہیں۔ Bruno کے بعد جی گلیلیو نے جو ٹیلی سکوپ کا موجد تھا‘ تحریر کیا کہ ہماری زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے اور یہ گھومتی ہے اور یہ کہ سورج کائنات کا مرکز ہے تو 1633ء میں ستر سالہ گلیلیو سے چرچ نے جو اقبالی بیان لکھوایا اس میں اس کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان سب باتوں کی تردید کرے اور اس بات کو تسلیم کرے کہ قبل ازیں وہ سورج کو کائنات کا مرکز کہہ کر فسق و فجور کا مرتکب ہوا ہے۔جبری بیان دلوانے کا کام پاکستانی طالبان بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ جب اپنے کسی دشمن کو اغوا کرلیتے ہیں تو پھر بھلے وہ سفیر ہو یا کسی اور مرتبے کا ہو وہ اس کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ کیمرے کے آگے بیٹھ کر وہی باتیں کرے جو طالبان چاہتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اس کو قید ہی میں رکھتے ہیں۔ آپ پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جہاں کٹر مذہبی رجحان کے لوگوں کے قبضے میں کسی قسم کی بھی طاقت آئی ہے انہوں نے ہمیشہ دوسرے لوگوں کے ناک میں دم کردیا ۔ اگر آپ تاریخ میں جھانکنا نہیں چاہتے تو اپنے اردگرد دیکھیں کہ جو شخص کٹر مذہبی رجحان رکھتا ہو‘ اس کے اپنے گھر کی کیا صورتحال ہے۔ مجھے تو ایسے لوگوں میں آج تک کم ہی صحیح معنوں میں خوشحال گھرانا دیکھنے کو ملا ہے۔ ایسے لوگوں کے گھروں میں اکثر محض گھٹن ہی دکھائی دے گی آپ کو۔ یاد رکھیں کہ مذہبی ہونے اور کٹر مذہبی ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے ہاںآج کل کٹر مذہبی لوگ شکاری بنے ہوئے ہیں اور مذہبی لوگ شکار۔ ہمارا دین تو ہمیں سکھاتا ہے کہ اعتدال کا بہترین راستہ ہے۔ قرآن نے ہمیں بھی امت وَسَط کہا ہے۔ پھر ہمارے نبیؐ کی سیرت میں اور ہمارے مشاہیر کی زندگیوں میں ایسے راستوں کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ملتا جو دہشت گردی کی طرف جاتے ہوں۔ اب جن لوگوں نے دہشت گردی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہو اور زبردستی ہماری رہنمائی پر تلے ہوں تو پھر سوچیں کہ ہمارے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں