"ARC" (space) message & send to 7575

مسئلہ جبرو قدر

ریڈیو کے زمانے کے میرے ایک دوست ہیں جن کا تعلق تمام عمر شعبہ موسیقی سے رہا ہے۔ موصوف خود بھی بہت اچھا گا لیتے ہیں اور انہوں نے ریڈیو سے اپنی طویل وابستگی کے دوران موسیقی کے کئی ایسے فنکار متعارف کرائے جو ملکی سطح پر مقبول ہوئے اور اب تک مقبول ہیں۔ یہ ہمارے دوست کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوگئے۔ گزشتہ برس ریڈیو پاکستان لاہور نے مہدی حسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا تو اس میں موسیقی سے طویل وابستگی کی رعایت سے میرے اس دوست کو بھی دعوت دی گئی کہ وہ اس محفل میں مہدی حسن کے فن اور ریڈیو کے ادارے سے وابستگی پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ میں بھی اس تقریب میں موجود تھا۔ جب میرے دوست کی تقریر کرنے کی باری آئی تو میں نے دیکھا کہ موصوف نے مہدی حسن کے فن کے بارے میں کچھ کہنے کے بجائے مسئلہ جبرو قدر پر اپنے فکرانگیز خیالات کا اظہار شروع کردیاجو تحریری شکل میں کئی صفحات پر پھیلے ان کے سامنے موجود تھے۔ تقریب کے منتظمین حیران تھے کہ یہ کسی موضوع پر گفتگو کررہے ہیں اور سامعین آنکھوں آنکھوں میں منتظمین سے پوچھ رہے تھے کہ مہدی حسن کے حوالے سے تقریب میں یہ کیا ہورہا ہے لیکن ہمارے دوست کو ان باتوں کا نہ کوئی احساس تھا اور نہ ہی پروا تھی۔ پتہ نہیں کتنی دیر وہ اس موضوع پر بولتے رہے اور پھر کیسے موصوف نے گریز کرکے بات مہدی حسن کے فن تک پہنچائی۔ بہرحال جب موصوف سٹیج سے اترے تو سب نے سکھ کا سانس لیا۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ منتظمین میں سے کسی نے میرے اس دوست سے شکایت کی کہ جناب والا آپ مہدی حسن کی تقریب میں جو یہ فلسفیانہ بحث لے کر بیٹھ گئے تھے تو آخر اس کا کیا مطلب تھالیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ بعد میں ریڈیو پاکستان نے موسیقی کے کئی اہم فنکاروں کے بارے میں تقریبات منعقد کیں مگر میرے اس دوست تک دعوت نامہ نہ پہنچا کہ آئیے اور ہمیں اپنے خیالات سے نوازیے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد خاص طورپر سرکاری ملازمین کو جب بہت زیادہ وقت میسر ہوتا ہے تو ان میں سے کچھ پڑھنے پڑھانے میں زیادہ مشغول ہوجاتے ہیں۔ جس موضوع کی کوئی کتاب پڑھ لیں اس پر پھر وہ اپنی ایک رائے بھی قائم کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی رائے کا کہاں اظہار کریں ۔ ہرجاننے والے کو زبردستی اپنی رائے سے مطلع کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس بیچارے نے وہ بنیادی کتاب بھی نہیں پڑھی ہوتی جس کو پڑھ کر ہمارے ریٹائرڈ سرکاری ملازم نے اپنی رائے قائم کی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں۔ اس دوران میں اگر کہیں سے کوئی ایسی دعوت موصول ہوجائے جس میں ان کو خیالات کا اظہار کرنے کا کہا جائے تو پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ تقریب کس حوالے سے منعقد کی گئی ہے۔ وہ کھینچ تان کے حال ہی میں پڑھی ہوئی کتاب پر اپنی ذاتی تنقید سامعین کے گوش گزار کردیتے ہیں۔ غالباً ایسا ہی میرے اس دوست کے ساتھ ہوا ہوگا کہ جبروقدر کے مسئلے پر کوئی کتاب پڑھ لی ہوگی اور پھر اس پر اپنی رائے بھی قائم کرلی ہوگی۔ میں چاہتا تو موصوف سے پوچھ سکتا تھا لیکن مجھے ایسا سوال کرنے میں بہت خطرہ محسوس ہوا۔ ممکن تھا اپنی تحقیق کا وہ حصہ جو وہ تقریب میں پیش نہ کرسکے تھے، ذاتی طورپر میرے گوش گزار کرکے میرے چودہ طبق روشن کردیتے۔ اصل میں یہ جبروقدر ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر فلسفی اور دانشور تو ایک طرف مذہب سے متعلق رہنمائی کرنے والی شخصیات بھی صدیوں بحث کرچکی ہیں۔ ان گنت کتابیں اس موضوع پر لکھی جاچکی ہیں لیکن ایک عام آدمی جس نے اس تاریخی بحث کا مطالعہ نہ کیا ہو وہ بہت جلد اس معاملے میں الجھ جاتا ہے کہ آخر ہماری زندگی پر ہمارا اپنا اختیار کتنا ہے اور کتنا ہم تقدیر کے تابع ہیں۔ کیا سب کچھ ہی پہلے سے طے ہو چکا ہے۔ مذہب سے ہٹ کر مغربی دنیا نے بھی اس موضوع پر بہت بحث کی ہے۔ معروف روسی ادیب LEO TOLSTOYکا مشہور زمانہ ناول WAR AND PEACE اگر آپ پڑھیں تو اس کے اختتام میں مصنف نے دو EPILOGUE شامل کیے ہیں۔ ایپی لاگ کسی بھی ادبی کاوش کے اختتامی حصے کو کہتے ہیں۔ عام طورپر ناول کے اختتام پر مصنفین ایپی لاگ شامل کرتے ہیں ۔ ٹالسٹائے کے ناول وار اینڈ پیس کے پہلے ایپی لاگ میں تو مصنف نے ناول کا اختتام کیا ہے جبکہ دوسرے ایپی لاگ میں The Problem of Free will and Necessity کا تجزیہ اس انداز سے کیا ہے کہ وہ سیکولر سطح پر جبروقدر کے مسئلے پر ایک فکر انگیز بحث دکھائی دیتی ہے۔ ٹالسٹائے کی ذہانت میں تو کسی کو شک نہیں لیکن آپ اس ایپی لاگ نمبر 2کے تمام صفحات بھلے بار بار پڑھیں آپ کے ذہن میں یہ سوال موجود ہی رہے گا کہ اپنی زندگی پر خود انسانوں کو کتنا کنٹرول ہے اور کتنا وہ تقدیر کے تابع ہیں ۔ ہم جس کو تقدیر کہتے ہیں تقریباً ویسا ہی مفہوم ٹالسٹائے نے لفظ Necessityکو دیا ہے لیکن بہرحال اس کا انداز ایسا ہے کہ اس نے اپنی بحث میں مذہبی نکتہ ہائے نظر کو دورہی رکھا ہے۔ مسلمانوں کے لیے جبروقدر کے معاملے کو سمجھنا ہمارے مشاہیر نے بہت آسان کردیا ہوا ہے۔ میرے ایک استاد نے برسوں پہلے کہا تھا کہ سید علی ہجویری ؒکی کتاب کشف المحجوب میں سید نا حضرت حسن ؓ کے بارے میں انہوں نے جوباب لکھا ہے وہ پڑھ لو۔ اس باب میں تحریر ہے کہ جب گروہ قدریہ نے غلبہ حاصل کیا اور معتزلہ کا مذہب دنیا میں پھیل گیا تو حضرت حسن بصریؒ نے حضرت حسن ؓ کو ایک خط لکھ کر اس مسئلے پر رہنمائی چاہی جس کے جواب میں امام حسن ؓ نے تحریر کیا کہ ان کی رائے میں ہرنیک اور برے کام کی تقدیر اللہ کی جانب سے ہے اور جس نے گناہوں کو اللہ کے ذمے لگایا وہ فاجرو گمراہ ہے ، نہ تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت جبراً کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی نافرمانی کسی مجبوری کے تحت کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کا مالک ہے جن کا اس نے اپنے بندوں کو مالک بنایا ہے اور ان سب چیزوں پر اس کی قدرت ہے جن پر اس نے اپنے بندے کو قادر بنایا ہے لہٰذا اگر وہ اطاعت کا ارادہ کریں تو وہ ان کو روکتا یا فرمانبرداری سے ہٹاتا نہیں اور اگر وہ نافرمانی کا ارتکاب کریں اور پھر وہ ان پر احسان فرمانا چاہے تو ان کے اور معصیت کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس نے ان کو معصیت پر نہ تو مجبور کیا ہے اور نہ ہی نافرمانی کا ارتکاب ان پر جبراً لازم کیا ہے۔ میرے خیال میں جبرو قدر کے مسئلے پر کشف المحجوب میں حضرت حسنؓ کے حوالے سے یہ بیان اس معاملے کو سمجھنے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مجھے تو یہ بیان پڑھنے کے بعد آج تک اس مسئلے کے بارے میں کبھی کوئی الجھن پیش نہیں آئی۔ فلسفے کے انتہائی پیچیدہ مسائل کو اس طرح سادہ اور آسان کردینا ہمارے بزرگوں کا صدقہ جاریہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں