پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ووٹرز سے کہا ہے کہ پیسے بھلے آپ کسی سے لیں مگر ووٹ تحریک انصاف ہی کو دیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے ووٹرز کو بددیانتی کی ترغیب دینا ہے۔ پیسے لے کر ووٹ دینا چونکہ بذات خود اپنے حق رائے دہی کیساتھ بددیانتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی سیاسی رہنما کا ایسا بیان قابل گرفت نہیں باور ہوگا بلکہ محض الیکشن کی بیان بازی کہلائے گا۔ اس قسم کی بیان بازی میں بظاہر کوئی حرج نہیں ہوتا لیکن جب انتہائی سنجیدہ مسائل پر سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران ایسے وعدے کرتے ہیں جن کا پورا ہونا محال ہوتا ہے تو یہ بات حقیقی بددیانتی ہی کے زمرے میںآئے گی۔ یہ الگ بات کہ قریب قریب ہر سیاسی جماعت ہی چونکہ اپنے اپنے انتخابی منشور میں عوام کو سبز باغ دکھاتی ہے لہٰذا یہ بددیانتی غلط العام ہوجاتی ہے اور قابل گرفت نہیں رہتی۔میں نے کئی لوگوں سے سیاسی جماعتوں کے منشور پر بات کی ان میں کچھ ایسے اصحاب بھی شامل تھے جو ماضی میں ایک آدھ سیاسی جماعت کا انتخابی منشور مرتب کرنے والی ٹیم کاحصہ بھی رہے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک شخص نے یہ بھی نہیں کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور اس غرض سے بنواتی ہیں کہ وہ برسراقتدار آ کر ان پر عملدرآمد کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ایک صاحب تو اس قدر دلبرداشتہ تھے‘ کہنے لگے، بھائی! سیاسی جماعتوں کے درمیان گپ بازی کے مقابلے کو انتخابی منشور کہا جاتا ہے۔ جلے کٹے تبصروں سے قطع نظر اگر ہم سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں کا جائزہ لیں تو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا سب ہی نے کہا ہے بس فرق یہ ہے کہ کسی نے کہا ہے کہ تین برس میں ختم کردیں گے، کسی نے دو برس میں ملک سے اندھیرے دور کرنے کی بات کی ہے۔ جن جماعتوں کے اقتدار میں آنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے تو مہینوں میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی بات کی ہے۔ ملک میں بجلی اورگیس کی کمی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ تر ہورہا ہے۔ بجلی اور گیس کی کمی نے ملک کی برآمدات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ کئی صنعتکار اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ نسبتاً چھوٹی صنعتوں کے مالک ہر دم اس کوشش میں دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا کارخانہ تھوڑا بہت چلتا رہے اور روزانہ کے اخراجات ہی پورے کرتا رہے۔ عام کام کرنے والے یعنی کاریگر قسم کے لوگوں کے لیے روٹی کمانا مشکل ہوچکا ہے۔ درزی گھنٹوں فارغ بیٹھے بجلی کا انتظار کرتے ہیں جب آتی ہے تو گھنٹے بعد پھر غائب ہوجاتی ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں طول طویل لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو ذہنی بیماریوں سے دوچار کردیا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے سچ نہ نکلے تو پھر آئندہ پانچ برسوں میں قوم کا جو حال ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ سیاستدان ابھی سے عوام کو ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیں کہ لوڈشیڈنگ کم ہونا تو شروع ہوجائے گی مگر مکمل خاتمے میں وقت لگے گا۔ اس کے ساتھ ہی ووٹروں کو بتائیں کہ کس طرح مرحلہ وار‘ بجلی کے بحران پر قابو پایا جائے گا۔ ملک کو دہشت گردی اور کرپشن سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے مگر لوڈشیڈنگ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ الیکشن تاریخ میں ایسے الیکشن کے طور پر یاد رکھا جائے جس میں لوڈشیڈنگ کے بحران نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو لازم قرار دیا جائے کہ وہ جس طریقے سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اس کے چیدہ چیدہ نکات تحریری طور پر ووٹرز کو دیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن گھر گھر جا کر کنویسنگ شروع کریں تو ووٹرز کو ان سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ انہیں تفصیلی منشور کے چکر میں نہ اُلجھائیں بلکہ اپنی جماعت کی طرف سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا پروگرام تحریری طور پر پیش کریں۔ یہ بتائیں کہ کرپشن کس طرح ختم کی جائے گی‘ دہشت گردی سے نمٹنے کی کیا پالیسی ہوگی۔ یہ سب باتیں‘ جو ووٹرز کی سمجھ میں آ سکیں بآسانی ایک سلپ پر لکھی جا سکتی ہیں۔ اس کاغذ پر سوال و جواب کرکے پھر ووٹرز یہ طے کریں کہ ووٹ کس امیدوار یا جماعت کو دینا ہے۔ ویسے تو اصولاً یہ سیاسی جماعتوں ہی کا فرض بنتا ہے کہ وہ رائے دہندگان کی ان اہم قومی مسائل پر تسلی کریں جس کے لیے وہ اگر خود سے ہی ایک صفحہ ووٹرز تک پہنچائیں جس پر اس سیاسی جماعت کی حکمت عملی کا نچوڑ عام فہم انداز میں درج ہو تورائے دہندگان کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔دیہی علاقوں میں ووٹرز کو اس طرح براہ راست انتخابی عمل میں شامل کرنا مشکل ہوگا کیونکہ وہاں تعلیم کا فقدان ہے۔ جاگیردارانہ سا ماحول پایا جاتا ہے اور برادریوں کا سسٹم گہری جڑوں کے ساتھ موجود ہے لیکن شہروں میں اس کام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں ماضی میں محض گول مول وعدے کرکے عوام کو ٹرخاتی رہی ہیں لیکن اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اس عمل کا آغاز کرسکتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے اہل کارکنوں کے ذریعے ووٹروں کو اہم قومی مسائل پر اپنی اپنی حکمت عملی براہ راست زبانی بھی پہنچائیں اور اس کا مختصر خاکہ ایک یا دو صفحات پر تحریر کرکے بھی ووٹرز کو دیں۔ اس طرح ہوسکتا ہے کہ انتخابات میں جیتنے والی جماعت یا جماعتیں اپنے کیے اور لکھے کی لاج رکھیں کیونکہ کتابی شکل میں منشور فراموش ہو جاتے ہیں۔ مگر براہ راست وعدے فراموش کرنا محال ہوگا۔ مزید برآں جو سیاسی جماعت یہ حکمت عملی اپنائے گی اس سے اُس کی انتخابی کارکردگی بھی بہتر ہو جائے گی۔