برسوں پہلے جب میں ڈرائیونگ سیکھ رہا تھا تو ڈرائیونگ سکھانے والے شخص نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تم گاڑی لے کر سڑک پر نکلو تو ذہن میں یہ رکھو کہ ہر کوئی گاڑی یا موٹرسائیکل جو سڑک پر موجود ہے وہ بہانے سے تمہیں ٹکر مارنا چاہتی ہے اور تم نے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ موصوف نے یہ بات کسی سے سنی ہو مگر اس کو وہ اپنی سنہری نصیحت کہتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے کئی شاگردوں نے برسوں بعد ہونیوالی ملاقات میں بھی ان کو بتایا کہ یہ سنہری نصیحت ان کو آج تک یاد ہے اور ان کو اس کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو اس نصیحت میں محض یہ پیغام ہے کہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور باقی یہ کہ سڑک پر تمام گاڑیاں آپ کو ٹکر مارنے کی فکر میں ہیں‘ یہ محض احتیاط کے پہلو پر زور دینے کا طریقہ ہے اور اس سے واقعتاً یہ نتیجہ نکال لینا کہ سڑک پر کوئی آپ کو مارنا چاہتا ہے‘ ظاہر ہے انتہائی غیر منطقی بات ہے۔ یہ جو آپ عام خاص اخبارات و رسائل میں اس قسم کی باتیں پڑھتے ہیں کہ پاکستان کو ٹکڑے کرنے کی سازش ہورہی ہے یا پھر یہ کہ دشمن ہمارے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کبھی نقشے چھاپ دیے جاتے ہیں کہ مستقبل میں ہمارے علاقے میں کس ملک کی کیا صورت ہوجائے گی اور کبھی کو ئی ضخیم سی رپورٹ شائع کردی جاتی ہے جس کا اختتام اس نتیجے پر ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بس پانچ دس برسوں کا مہمان ہے۔ میری رائے میں اس قسم کی باتوں کو ہمارے ڈرائیونگ استاد کی سنہری نصیحت کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ جس طرح حقیقت میں سڑک پر کوئی ہمیں مارنے کیلئے نہیں نکلا ہوتا مگر استاد کی نصیحت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈرائیونگ انتہائی احتیاط سے کی جائے تو اسی طرح ہمیں ایسے بیانات کو‘ جن میں پاکستان کے خلاف ہونے والی ممکنہ سازشوں کا ذکر ہوتا ہے‘ محض ایسے بیانات باور کرنا چاہیے جن میں ہمیں محتاط رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سلسلے کا تازہ بیان ہمارے برادر اسلامی ملک ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کے حوالے سے اسی اخبار میں چند روز پہلے شائع ہوا ہے۔ انہوں نے ایران کے مشرقی شہر تبریز میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی استعمار پاکستان، شام اور عراق کے عوام میں مصنوعی جنگ کرا رہا ہے تاکہ ان اقوام کو تقسیم کیا جاسکے۔ اس تقریر میں ایرانی صدر نے کہا کہ مغرب اس سے پہلے نسلی فسادات کراتا رہا مگر اب وہ کچھ ملکوں میں جنگ بڑھانے کے لیے مذہبی اختلافات کو بھی استعمال کررہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں ترکی اور سعودی عرب سمیت دیگر ملک بھی اس سازش کا شکار ہوسکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس بیان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ پاکستان سمیت جن ملکوں کا ذکر ایرانی صدر نے کیا ہے ان ملکوں کو اپنا اپنا کاروبارِ مملکت چلاتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور فرقہ واریت، مذہبی اختلافات اور نسلی تعصب سمیت ان تمام برائیوں سے بچنا چاہیے جو قوموں میں دراڑیں ڈالتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملک اپنی غلطیوں سے ٹوٹتے ہیں۔ دشمن ملک تو اس وقت فائدہ اٹھاتے ہیں جب کسی ملک کے اندر انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی واضح مثال بنگلہ دیش کا قیام ہے۔ وہ الگ بات کہ ہم اس ضمن میں بھارت کو بہت بُرا بھلا کہتے ہیں مگر جب بھی ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں تو بنیادی قصور اپنا ہی نکلتا ہے۔ بھارت نے جو کیا وہ تو 1947ء سے وہ کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ ہم نے موقع1971ء میں فراہم کردیا۔ اگر ہم آج تک یہ موقع بھارت کو فراہم نہ کرتے تو مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ ہوتا اور بھارت کوششیں کرتا رہتا تو کرتا رہتا۔ جہاں تک امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا تعلق ہے ان کی باقی دنیا کے لیے جو پالیسیاں ہیں بھلے وہ کتنی خفیہ رکھی جاتی ہوں مگر عیاں تو سب پر ہیں‘ کیونکہ اعمال جو ہیں وہ الفاظ سے زیادہ اونچی آواز میں بولتے ہیں۔ ہمارے بیان دینے سے یا ہمارے طعنے دینے سے ان کی پالیسیاں تو بدل نہیں سکتیں‘ لیکن یہ بات بھی ہے کہ جب تک ہم خود ان ملکوں کو یہ موقع فراہم نہ کریں کہ وہ ہمارے ہاں اپنی پالیسیاں آگے بڑھائیں اس وقت تک یہ مغربی ملک کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر ہم خود محتاط ہوجائیں تو ملک ٹوٹنے کی سازشیں وغیرہ مزاحیہ بیانات کا درجہ اختیار کرلیں گی۔ حال ہی میں جتنے اسلامی ملکوں میں شور شرابے کے بعد حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں ان میں بنیادی کردار اندر سے اٹھنے والی شورشوں کا رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہی پرانی حکومتیں جوں کی توں ہوتیں‘ اگرچہ مغربی ملک وہی کچھ کررہے ہوتے جوآج بھی کررہے ہیں۔ آپ آج‘ جو کچھ شام میں ہورہا ہے‘ وہ دیکھ لیں۔ امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ میں سب سے اہم اتحادی اسرائیل کی شام کے ساتھ مخاصمت برسوں سے چل رہی ہے اور پھرشام، ایران کے ہمراہ حزب اللہ کا بڑا حامی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس بھی شام کا اہم اتحادی ہے۔ ان سب وجوہ کی بنا پر امریکہ کی پالیسیاں عرصہ دراز سے شام پر دبائو رکھے ہوئے تھیں مگر شام کے لیے یہ دبائو اس وقت مسئلہ بنا جب ملک کے اندر سے حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی۔ القاعدہ ان باغیوں کی حامی ہے اور امریکہ بھی باغیوں کا حامی ہے اور یہ ممکن ہے کہ امریکہ وہاں باغیوں کی جو مدد کررہاہے اس سے القاعدہ بھی کھل کر فائدہ اٹھا رہی ہو‘ مگر امریکہ کو پروا نہیں۔ وہ اپنے کام پر لگا ہوا ہے۔ اب بھی اگر شام اپنے اندرونی حالات سنبھال لے‘ جس کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے‘ تو امریکہ اور القاعدہ مل کر بھی وہاں کچھ نہیں کرپائیں گے۔ اس پس منظر میں جب ہم اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو یہ جو طالبان کا چیلنج ہے یہ سب سے بڑا اندرونی خطرہ بن چکا ہے۔انتخابات کے زمانے میں طالبان اپنی دھمکی کے عین مطابق پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کا یہ غلط مطلب نکالا جارہا ہے کہ وہ شاید مسلم لیگ ن‘ تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی دیگر جماعتوں کے دوست ہیں۔ اس سلسلے میں جو پارٹیاں طالبان کے حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں وہ حملوں کا نشانہ نہ بننے والی جماعتوں کو طعنے بھی دے رہی ہیں کہ شاید انہوں نے طالبان سے کوئی خفیہ مصالحت کر رکھی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ طالبان یہ ایک حکمت عملی کے تحت کررہے ہیں تاکہ ملک کے اندر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہوسکے اور ایک دوسرے سے دست و گریبان ہی رہیں کیونکہ اگر وہ سب کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکنے لگیں تو ان کے خلاف ملک میں نفرت اور بھی بڑھ سکتی ہے اور ایک ایسے اتفاقِ رائے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے جو طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے ضمن میں ہماری مسلح افواج کو طاقت فراہم کردے گا۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں تھوڑے بہت سیاسی فائدے کے لیے ملک میں طالبان مخالف اور طالبان کی حامی جماعتوں میں بٹتی نظر نہ آئیں۔ اس سے ملک اندر سے کمزور ہوجائے گا تو پھر باہر کی قوتوں کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن اگر ہم نے اندر سے اپنے آپ کو مضبوط رکھا، احتیاط کا دامن نہ چھوڑا تو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اپنی پالیسیاں لے کر صدیوں تک اس وقت کا انتظار کرتے رہیں گے کہ ہم اندر سے کمزور ہوں اور وہ اپنا کام کر جائیں۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو اگر ملک کے اندر ان کے خلاف سب آوازیں ہم آہنگ ہوگئیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔