"ARC" (space) message & send to 7575

جلد بازی

جلد بازی انسان کی جبلت میں موجود ہے تاہم عقل جو راہ سجھاتی ہے وہ یہی ہے کہ تحمل کے ساتھ کیے جانے والے کام ہی دیرپا ہوتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں جلد بازی کے نقصانات کا سب سے زیادہ خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب انتقال اقتدار ہوتا ہے اور کوئی نئی حکومت بنتی ہے۔ ایسے موقعوں پر زیرک قیادتیں انتہائی تدبر‘ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتی ہیں اور جلد بازی سے ہر ممکن گریز کرتی ہیں۔ اگر ہم ماضی کی اپنی تاریخ دیکھیں تو ہمیں یہ گریز کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ،جو پاکستان باقی رہ گیا تھا ،اس کے سربراہ بنے تو انہوں نے اول روز ہی سے جو کچھ بھی کیا انتہائی تیزی سے کیا۔ کہیں تو مخصوص حالات کی وجہ سے تیزی سے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی مگر اکثر صورتوں میں ان کی طرف سے جلد بازی کا مظاہرہ ہوا اور وہ انتہائی عجلت میں ایسے ایسے فیصلے کر گئے کہ آج تک ان فیصلوں کے منفی اثرات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایک روز صبح لاہور میں میڈیا کو یہ اطلاع دی گئی کہ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ غالباً دن کو گیارہ بجے کے قریب یہ پریس کانفرنس شروع ہوئی اور منٹوں میں تمام بڑی بڑی صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اگلے روز کالاشاہ کاکو میں راوی ریان کے چیف ایگزیکٹو کے دفتر میں پنجاب کے سیکرٹری انڈسٹریز کا قبضہ تھا اور مال روڈ لاہور پر واقع بیکو یعنی بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے ہیڈ آفس میں ڈائریکٹر انڈسٹریز براجمان تھے۔ یہی صورتحال ملک کے دیگر حصوں کی بڑی بڑی صنعتوں کی تھی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ وہ بتانے کی ضرورت نہیں ،سب کو معلوم ہے۔ اسی طرح ایک روز پاکستانی صبح سو کر اٹھے تو اخباروں میں خبر تھی کہ ملک کے صدر فضل الہٰی چودھری کے حکم سے تمام بینکوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے نتائج سے بھی سب پاکستانی واقف ہیں۔ بھٹو صاحب نے جو اچھے اور مثبت کام کیے ان سے بھی قوم آگاہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جلد بازی کرنے میں قائدعوام کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے پاکستان میں قومی زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس پر اپنا اثر نہ چھوڑا ہو۔ اصلاحات کا ایک طوفان آیا ہوا تھا ان کے دور میں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسی تیز رفتار خارجہ پالیسی چلا رہے تھے کہ روزانہ ہی اخباروں میں اس امر پر بحث ہوتی تھی کہ اخبار کی سب سے بڑی سرخی، بھٹو صاحب کے کس اقدام کے بارے میں ہو۔ پھر انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرنے میں بھی موصوف نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے انتخابات کے معینہ وقت کا انتظار کرنے کے بجائے مارچ 1977ء میں ہی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان جس انداز میں کیا وہ بھی جلد بازی کی ایک مبین مثال ہے۔ 7جنوری 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو لاہور کے دورے پر آئے۔ ان کے پروگرام میں تھا کہ علامہ اقبال کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر اقبال کی صد سالہ تقریبات کا آغاز کریں گے۔ صبح موصوف مزار اقبال پر پہنچے اور صدسالہ تقریبات کا افتتاح کیا اور وہاں سے واپس اسلام آباد جانے کے لیے جب لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے 7مارچ 1977ء کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ میں نے اس دور میں لاہور ریڈیو سٹیشن پر حالات حاضرہ سے متعلق پروگراموں کے سینئر پروڈیوسر کے طور پر کام کیا ہے ا ور اسی وجہ سے یہ باتیں مجھے یاد ہیں اور اسی رعایت سے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ لاہور میں جب کبھی میڈیا کے نمائندے کسی مقام پر بھٹو صاحب کی آمد کا انتظار کررہے ہوتے تو اس دوران کئی مرتبہ یہ بات بھی زیربحث آتی کہ آخر ذوالفقار علی بھٹو کو جلدی کس بات کی ہے۔ ایک اخبار نویس جو اس وقت ہمیں منہ پھٹ محسوس ہوتا تھا، کہا کرتا تھا کہ اس طرح جلدی جلدی اور تیزی سے وہ لوگ زندگی گزارتے ہیں جن کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنی انتخابی مہم میں بھی نو جماعتوں کے اتحاد کے مقابلے میں تنہا جتنے جلسے کیے وہ بھی غالباً ایک ریکارڈ ہوگا اور پھر جس روز انتخابی مہم ختم ہورہی تھی تو انہوں نے مینار پاکستان پررات بارہ بجے اپنی آخری تقریر میں کہا کہ پاکستانیوں نے مجھے منتخب کیا تو میں دو کام کرکے تم لوگوں کو دوں گا۔ وہ دو کام کیا ہیں وہ ابھی نہیں بتائوں گا جب کرلوں گا تب بتائوں گا اور پھر اس کے بعد آخری جملے میں وارننگ دی کہ اگر مجھے ووٹ نہ دیا تو پھر یہ مینار پاکستان، یادگار پاکستان بن جائے گا۔ بھٹو صاحب کونسے دو کام کرنیوالے تھے۔ وہ پاکستان کو تو انہوںنے نہ بتایا مگر معلوم ہوتا ہے کہ کچھ طاقتوں کو ان کاموں کا پتہ چل گیا تھا ۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی مدد سے 5جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار ختم کردیا۔ ماضی میں جا کر ہم فیصلوں کو تبدیل تو نہیں کرسکتے مگر ان سے سبق تو سیکھ سکتے ہیں۔ فیصلہ سازی کس طور پر کی جائے تو فائدہ مند رہتی ہے اور کیسی فیصلہ سازی نقصان دہ رہتی ہے؟ اگر کوئی حکمران یہ سیکھنا چاہے تو ذوالفقار علی بھٹو کا دور ایک ٹیکسٹ بک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر جو میں نے مثالیں دی ہیں ان سے بھی کافی رہنما ئی مل سکتی ہے۔ ہمارے ہاں نئی حکومت میاں نوازشریف کی بن رہی ہے جو دو مرتبہ پہلے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ان کے پہلے ادوار میں ان کی حکمرانی میں بھی آپ کو جلد بازی سے کیے گئے فیصلے دکھائی دیں گے جن کے نتائج قوم نے بھی بھگتے اور خود انہوں نے بھی بھگتے۔ ان کا دور اور اس سے متعلق واقعات چونکہ ابھی اتنے پرانے نہیں ہوئے کہ لوگوں کو یاد نہ ہوں۔ لہٰذا میں اپنی بات واضح کرنے کے لیے صرف ایک مثال پر قناعت کروں گا۔ پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی اپنی شدید خواہش کے پیش نظر میاں صاحب نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ لاہور کا جو فیصلہ کیا تھا وہ حالات نے ثابت کردیا کہ جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ کرتے وقت ایسے حقائق کو نظرانداز کر دیا گیا تھا جو آج تک ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ اب تو پاکستان میں ہر کوئی اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ بھارت ہمارا دوست کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کو اس وقت نظر انداز کردیا گیا تھا۔ ہماری مسلح افواج معاہدۂ لاہور کے حق میں نہیں تھیں۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس جلد بازی میں میاں نوازشریف نے واجپائی کے ساتھ معاہدہ کیا اسی جلد بازی سے جنرل مشرف نے کارگل کے منصوبہ پر عملدرآمد کا حکم دے دیا حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کہ بینظیر بھٹو اپنے دور حکومت میں ایسے کسی بھی منصوبے کو رد کر چکی تھیں ،پھر اس تمام جلد بازی نے نقصان ہی نقصان پہنچایا۔ بھارت میں آج کل میڈیا میں عمومی طور پر میاں نوازشریف کے انتخاب جیتنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لائیں گے۔ بھارت کے نزدیک پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا محض ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں محض وہ ان پیش رفتوں کو عملی جامہ پہنائے گا جن میں اس کا فائدہ ہو اور جس ا قدام سے پاکستان کو رتی برابر بھی فائدہ پہنچتا ہو اس کو وہ مسلسل معرض التوا میں رکھ کر آخر میں منسوخ کر دیتا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہوگا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے ضمن میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور محض اپنی حکمت عملی یہی رکھی جائے کہ ہماری بھارت سے دشمنی ہے اور نہ دوستی۔ تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔ متنازع مسائل بھارت نے کبھی حل نہیں کرنے اور جب تک ہم اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہوںگے ہم ان کے حل پر زور بھی نہیں دے سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں