قوم کی حالت پر بے لاگ نظر ڈالی جائے تو اس قوم کا حصہ ہوتے ہوئے خود اور ہم وطنوں پر رحم آنے لگتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب سے یہ ملک بنا ہے قوم مسلسل امتحان کی حالت میں ہے۔اگرچہ دنیا کی دیگر اقوام بھی امتحانات سے گزری ہیں لیکن اس ضمن میں ہماری قوم پہ جو کچھ گزرا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔فلسطینیوں اور کشمیریوں سمیت آزادی ،حق خودارادیت یا اپنے وطن کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والوں سے ہمارا موازنہ مناسب نہیں کیونکہ ہم تو آزادی حاصل کرچکے ہیں۔تاہم جب ہم اپنے جیسے ملکوں سے موازنہ کرتے ہیں تو بہت دُکھ ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں امیدیں پیدا ہوتے ہی دم توڑ جاتی ہیں جیسے کچھ تھا ہی نہیں ۔سب کچھ وہم تھا جو امید کی شکل میں سامنے آیا۔ایسی صورتحال ہمارے ملک میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی نئی حکومت آتی ہے ہم تو فوجی حکومتوں کے آنے پر بھی امیدیں باندھتے رہے ہیں ۔2008ء کو جمہوری حکومت کی آمد پر بھی عوام نے بہت توقعات وابستہ کرلی تھیں۔چند روز قبل ایک پرانی فلمی غزل سنائی دی۔معروف بھارتی شاعر کیفی اعظمی کی غزل کو لتا منگیشکر نے بہت خوبصورتی سے گایا ہے اور دھن بھی کمال کی ہے۔اس غزل کا مطلع سن کر ایسے لگا جیسے ہماری قوم کی جو اس وقت حالت ہے اس کی ترجمانی کی گئی ہے۔ وہ مطلع کچھ اس طرح ہے: آج سوچا تو آنسو بھر آئے مدتیں ہوگئیں مسکرائے یہ حقیقت ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں مسکرائے مدتیں بیت چکی ہیں اور اس مرتبہ جب ایک نئی منتخب حکومت کی آمد آمد ہے تو لامحالہ ماضی کی تلخیاں جب ذہن میں ابھرتی ہیں تو آنکھوں میں آنسو آنے لگتے ہیں۔ جو بات سمجھ میں نہیں ا ٓتی وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے۔کیا ہمارے ملک میں وسائل کی کمی ہے؟ ہرگز نہیں۔ہمارے دشمن تک مانتے ہیں کہ پاکستان وسائل سے مالامال ملک ہے۔پھر کیا ہمارے لوگ محنتی نہیں ہیں؟ کیوں محنتی نہیں ہیں۔پاکستانیوں کے محنتی ہونے کو تو دنیا تسلیم کرتی ہے۔اپنی زیادہ ستائش کرنے کو جی نہیں چاہتا لیکن ہرپاکستانی جانتا ہے کہ مسئلہ وسائل کا نہیں اور نہ ہی عوام کے محنتی ہونے کا ہے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں جن کو اقتدار ملتا ہے وہ اپنی نظر اپنے مفادات سے ہٹا نہیں پاتے۔جس طرح فلسفے میں کہتے ہیں کہ سلیٹ پر نئی عبارت لکھنے کے لیے پہلی عبارت کو مٹانا ہوتا ہے۔اسی طرح جب تک صاحب اقتدار اپنے ذہنوں کی سلیٹ کو صاف نہیں کریں گے، عوام کے مفادات کی عبارت نہیں لکھ پائیں گے ۔لیکن ہمارے ہاں نئے حکمران اپنے مفادات کی عبارت کو تو مٹاتے نہیں ۔اپنے ذہن کی سلیٹ پر بچی کھچی جگہ پر عوامی مفادات درج کرکے حب الوطنی اور عوام دوستی کا ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں، لیکن اُن کی اصل توجہ اپنے مفادات پر ہی رہتی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس مرتبہ کیا ہوگا۔نام نہاد ماہرین روحانیات اور جوتشی تکے چلائے جارہے ہیں؛البتہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ نئی قیادت کو اپنے مفادات ترک کرکے عوام کے مفاد میں اقدامات کرنے ہوں گے۔ کائیاں لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ حکمران ضرور اپنے مفادات کا بھی خیال رکھیں مگر اولیت عوامی مفادات کو دیں یہ میرے نزدیک دھوکہ دہی ہی ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اپنے مفادات اور عوامی مفادات کو ساتھ ساتھ رکھنا آگ اور پانی کو ساتھ ساتھ رکھنے والی بات ہوتی ہے۔جس کا نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے گزشتہ ادوار اقتدار میں بظاہر اسی طریقے پر عملدرآمد کرتی رہی ہے۔اس جماعت کے کرتا دھرتا لوگوں کے اپنے مفادات بھی تھے اور قومی مفادات بھی ۔ اب نتائج آپ خود دیکھ لیں۔ان لوگوں کی سب تکلیفیں ، قربانیاں وغیرہ سے قطع نظر صرف یہ دیکھ لیاجائے کہ ان کے سابقہ ادوار میں کتنے ان کے اپنے مفادات آگے بڑھے اور کتنے قومی مفادات آگے بڑھ سکے۔ کسی قسم کا مثبت یا منفی لیبل لگانے سے گریز کرتے ہوئے میں عرض کروں گا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کو کارکردگی دکھانے کا بے مثال موقع ملا ہے۔اس مرتبہ اس جماعت کے کرتا دھرتا لوگ اگر ہمت کرکے اپنے مفادات کو صحیح معنوں میں منجمد کردیں اورصرف اور صرف قومی مفادات کے تحت آگے بڑھیں تو امکان غالب ہے کہ ہمارے عوام نے اس قیادت سے جو امیدیں وابستہ کرلی ہیں وہ آہستہ آہستہ پوری ہونا شروع ہوجائیں گی۔امید پوری ہونے کی طرف مثبت انداز میں اگر سفر بھی شروع ہوجائے تو وہ بھی غنیمت ہوگا اگر اعلان تو یہ کیاگیا کہ ہم نے اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے ،زمینی حقائق کچھ اور بتاتے رہے تو پھر وہی کچھ ہوگا جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں۔یعنی اپنے مفادات تو ان کے ذہنوں کی سلیٹ پر تحریر ہی رہیں گے بس سلیٹ پر بچی کھچی جگہ پر عوام کے مفادات تحریر کرکے آگے بڑھا جائے گا جس کا نتیجہ ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں ہمارے حکمرانوں کو انسانوں کی سدا رہنمائی پر مامور اللہ کی کتاب میں سورہ التکاثر کی پہلی دو آیتیں ہمیشہ ذہن میں تازہ رکھنی چاہئیں جن کا ترجمہ سید ابو اعلیٰ مودودی ؒکی تفہیم القرآن میں اس طرح درج ہے۔’’ تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو‘‘۔