"ARC" (space) message & send to 7575

کرکٹ کمنٹری

ہمارے ہاں کرکٹ کے کھیل کو مقبول عام بنانے میں ریڈیو پر نشر ہونے والی رننگ کمنٹری کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ شروع کے دور میں براہ راست رواں تبصرہ انگریزی زبان میں ہوتا تھا اور ریڈیو پاکستان کے پاس دو کمنٹیٹر تھے… عمر قریشی اور جمشید مارکر۔ یہ دونوں پندرہ پندرہ منٹ باری باری کمنٹری کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کو زیادہ دلچسپی اس بات میں ہوتی تھی کہ سکور کیا ہے۔ کتنے آئوٹ ہوئے ہیں۔ کیا میچ ڈرا ہونے جارہا ہے یا پھر فیصلے کا امکان ہے۔ اُس دور میں کرکٹ صرف ٹیسٹ میچوں تک محدود تھی اور اکثر ٹیسٹ میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ہی ختم ہوجاتے تھے۔ پاکستان میں ساٹھ کے عشرے کی ابتدا کے ساتھ ہی ٹرانسسٹر ریڈیو عام ملنے لگا تھا۔ اس کی قیمت بھی کم تھی اور پھر یہ بیٹری سیلوں پر کئی دن چلتا رہتا تھا‘ لہٰذا اس دورمیں جب کبھی کرکٹ میچ ہوتا تو اس پر رننگ کمنٹری گھروں کے علاوہ دفتروں، گلیوں بازاروں اور کھیتوں تک پہنچ جاتی۔ عوام میں اس کی پذیرائی بڑھی۔ ساتھ ہی پاکستان میں ٹیلیویژن کی آمد ہوگئی۔ پہلے بلیک اینڈ وائٹ اور پھر ستر کے عشرے میں رنگین ٹیلیویژن آگیا اور یوں کرکٹ کا کھیل ہمارے عوام کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ جس دور میں ہمارے ہاں کرکٹ کو عوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی‘ اسی دور میں یہ مہم شروع ہوگئی کہ کرکٹ میچ پر رواں تبصرہ اردو زبان میں بھی ہونا چاہیے۔بھارت میں ہم سے پہلے انگریزی زبان کے ساتھ ہندی میں کرکٹ کمنٹری شروع ہوچکی تھی۔ ہمارے ہاں ایوب خان کے دور میں اردو میں رننگ کمنٹری کی پہلی مرتبہ کوشش کی گئی مگر وہ تجربہ ناکام ہوگیا۔ ریڈیو والوں نے کسی کرکٹ جاننے والے شخص کے بجائے معروف شاعر قیوم نظر کو اس کام پر مامور کیا۔ موصوف تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے اور جب انہوں نے ایسی ترکیبیں استعمال کرنا شروع کیں کہ ’’بائولر اب گیند کو اپنی بائیں ران پر سہلا رہا ہے‘‘ تو مجبوراً ریڈیو حکام کو اُردو میں رواں تبصرے کا خیال ترک کرنا پڑا۔ جب میچ میں دن بھر کا کھیل ختم ہوتا تو پانچ منٹ کے لیے اس پر اردو میں اور پھر پانچ منٹ کے لیے بنگالی زبان میں تبصرہ نشر کردیا جاتا۔ انہی دنوں میں کرکٹ کے کچھ شیدائی جن میں منیر حسین، محمد ادریس اور حسن جلیل جیسے لوگ شامل ہیں‘ اُردو میں رواں تبصرے کے لیے ریڈیو حکام کو اور بعد میں ٹی وی حکام کو ترغیب دیتے رہے۔ ٹی وی اور ریڈیو والے خود بھی چاہتے تھے لہٰذا یہ معمول بن گیا کہ کرکٹ میچ پر رننگ کمنٹری انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ہوا کرے گی۔ ہوتا یہ تھا کہ چشتی مجاہد نے انگریزی میں پندرہ منٹ کمنٹری کی تو ان کے بعد حسن جلیل پندرہ منٹ کے لیے اردو میں کمنٹری کرنے لگے۔ اسی طرح افتخار احمد آئے اور پھر محمد ادریس آگئے۔ شہزاد ہمایوں آئے اور ان کے بعد منیر حسین آگئے۔ کتنی کمنٹری اردو میںہوگی اور کتنی انگریزی میں‘ یہ جھگڑا رہتا تھا مگر کمنٹیٹرز کی اس مسئلے پر کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ اُردو میں رواں تبصرے سے پہلے ہمارے عام لوگوں کی کرکٹ میں دلچسپی بس ہار جیت تک یا پھر یہ جاننے تک محدود رہتی کہ کونسی ٹیم کھیل رہی ہے یا کیا سکور ہے کیونکہ انگریزی کمنٹری میں کھیل کی جو باریکیاں بیان ہوتی تھیں ان کو سمجھنے والوں کی تعداد انتہائی کم تھی۔ یہ ہمارے اردو کمنٹیٹرز تھے جنہوں نے ہمارے عوام کو کرکٹ کے کھیل کی باریکیاں سمجھائیں اور پھر ٹیلیویژن پر اس کھیل کو براہ راست نشر ہوتا دیکھ کر ہماری گلیوں بازاروں میں کرکٹ پر ہر کوئی ماہرانہ تبصرے کرنے لگا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر اس دور میں کمنٹیٹر کے ساتھ ماہرانہ رائے کے لیے بھی ایسی شخصیات کو بٹھایا جاتا تھا جو کھیل کو اس انداز میں سمجھاتے تھے کہ کمنٹیٹرز کی بھی تعلیم و تدریس ہوتی رہتی تھی۔ ایک اوور ختم ہوتا اور محمد ادریس ماہرانہ تبصرے کے لیے اپنے ساتھ بیٹھے کرنل شجاع الدین بٹ سے درخواست کردیتے۔ کرنل صاحب جو کرکٹ کے کھیل کی کمال کی سمجھ رکھتے تھے، مائیکرو فون سنبھالتے اور منٹ بھر کے درمیانی وقفے میں گزشتہ اوور کا ایک مکمل پوسٹ مارٹم کردیتے۔ کرکٹ کا کھیل ہورہا ہو تو سامعین کے لیے بہترین رواں تبصرہ یہی ہے کہ وہ اردو زبان میں ہو اور ساتھ ماہرانہ رائے دینے کے لیے ایک ایکسپرٹ موجود ہو اور دو اووروں کے درمیانی وقفے میں کمرشلز نہ ہوں بلکہ سامعین، ناظرین تک کسی ماہر مبصر کا تبصرہ پہنچے۔ یہ بہترین سلسلہ ہمارے ملک میں جاری تھا کہ اس پر کارپوریٹ کلچر کا حملہ ہوگیا۔ اب کیا ہوتا ہے؟ اردو میں رواں تبصرہ تو خواب خیال ہو کے رہ گیا ہے۔ دو اووروں کے درمیان ماہرانہ تبصرہ تو دور کی بات ہے بعض اوقات سامعین و ناظرین تک چھ کے بجائے محض پانچ گیندوں کا کھیل پہنچ پاتا ہے۔ تازہ ترین ایجادات سے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب رواں تبصرے کو اہمیت حاصل تھی اور کمرشلز ایسے اوقات میں چلاتے جاتے تھے کہ کھیل کا مزہ کرکرا نہ کریں‘ وہ آج کل کے نام نہاد ہائی ٹیک قسم کی رننگ کمنٹری سے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتے۔ ٹی وی پر تو مکمل طور پر اسی کمنٹری کا قبضہ ہے اور تبصرے وغیرہ صرف شروع‘ آخر یا لنچ اور چائے کے وقفوں تک محدود ہیں البتہ ریڈیو پر ایک کمنٹری شروع ہوئی ہے جس کو ڈبہ کمنٹری کہا جاتا ہے۔ اس میں کمنٹیٹر کو ٹی وی کے آگے بٹھا دیا جاتا ہے اور وہ ٹی وی پر کھیل دیکھ کر رواں تبصرہ نشر کرتا رہتا ہے۔ ایسا کرنا ریڈیو پاکستان جیسے ادارے کے لیے جو کہ اس ملک میں کرکٹ کی ترویج کی پہلی اینٹ رکھنے والا ادارہ ہے، کوئی قابل فخر بات نہیں۔ آج کل تو محض ایک کمنٹیٹر اور ایک ماہر مبصر محض موبائل فونز کی مدد سے کسی بھی ملک میں کھیل کے میدان سے رواں تبصرہ پیش کرسکتے ہیں جو صحیح معنوں میں رواں تبصرہ ہوگا۔ نشریاتی حقوق اور دو لوگوں کے آنے جانے اور رہائش کے آخر کتنے اخراجات ہوجائیں گے۔ میرے خیال میں ریڈیو پاکستان کا سالانہ بجٹ تین سو کروڑ سے زیادہ ہے۔ کمی ہو تو پھر کمرشلز بھی تو مل سکتے ہیں۔ پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو چینلز کے ساتھ اشتراک عمل بھی فائدہ دے سکتا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اب آنے والی نئی حکومت جب کوئی نشریاتی پالیسی بنائے تو اس میں اپنے ملک کے عوام کے لیے ریڈیو کے ذریعے کھیل کے میدان سے براہ راست رواں تبصرہ بہم پہنچانے کو لازماً پیش نظر رکھے… وگرنہ پھر کارپوریٹ کلچر ہی رہ جائے گا جو محض کھیل کی تباہی کا فارمولا ہے۔ جس کو شبہ ہے وہ دیکھ لے بھارت میں جو آج کل ہورہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں