"ARC" (space) message & send to 7575

تعلیم‘ملالہ اور طالبان

نوآبادیاتی دور کے آغاز میں انگریزوں نے زور لگا کر برصغیر میں پہلے سے موجود تعلیمی نظام کو ختم کیا۔ اس کے بعد جب صدیوں پرانے آزمودہ تعلیمی نظام کا خاتمہ ہوگیا تو پھر اپنا تعلیمی نظام رائج کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز بہادر کو جتنی تعداد میں خدام کی ضرورت تھی وہ تو مہیا ہوگئے مگر ہمارے ہاں خواندگی شرح انتہائی کم ہوگئی۔ آزادی کے بعد بھی ہمیں اس سلسلے میں کوئی خاص کامیابی نہ ہوسکی کیونکہ ہم نے انگریزوں کے دیے تعلیمی نظام میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کرنے سے گریز کیا۔ بھارت میں بھی صورتحال کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ وہاں بھی خواندگی کی شرح تسلی بخش نہیں ہے۔ بچوں کو سکولوں میں لانے کے لیے اوردوپہر کا کھانا بچوں کو مفت فراہم کرنے پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ حال ہی میں‘ آپ نے‘ بھارتی ریاست بہار کے کسی سکول میں‘ دوپہر کو مفت دیے جانے والے کھانے میں کسی زہریلی شے کی ملاوٹ سے‘ بیس بچوں کی ہلاکت کی خبر سنی ہوگی۔ یہ المناک خبر بھارتی حکومت کے لیے اس لیے انتہائی تشویشناک ہے کہ امکان غالب ہے کہ اس خبر کے بعد والدین بچوں کو سکول بھیجنا بند کردیں گے۔ بہرحال یہ مسئلہ بھارت کا ہے۔ ہمارے ہاں اب صورتحال یہ ہے کہ وہی انگریز جنہوں نے برصغیر میں خواندگی کی شرح میں انتہائی کمی کردی تھی آج کل اربوں روپے کی امداد اس غرض سے دے ہے ہیں کہ بچوں کو سکولوں میں لایا جائے او رشرح خواندگی میں اضافہ کیا جائے۔ پنجاب حکومت کے ساتھ اس ضمن میں حکومت برطانیہ کا عملی اشتراک بڑے زور و شور سے چل رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی تعلیمی استعداد بڑھا دی جائے تو دہشت گردی میں کمی ہوسکتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کیسے کمی ہوگی۔ پھر کہا جاتا ہے کہ تعلیم سے اقتصادی صورتحال بہتر ہوگی جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دہشت گردی کم ہوجائے گی۔ کیسے کم ہوگی یہ پھرنہیں بتایا جاتا۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ جو 11ستمبر 2001ء کو نیویارک میں ہوا اسے رونما کرنیوالے تعلیم یافتہ اور اقتصادی طور پر آسودہ حال تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارے ہاں کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ مگر جو پالیسیاں بن رہی ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر بچے کو سکول پہنچا کر دم لینا ہے اور پھر جو نیا روشن خیال سلیبس بنا ہے اس کے ذریعے ان بچوں کو واجبی سی تعلیم فراہم کردینا انتہائی ضروری ہے۔ مجھے یہاں پطرس بخاری کا مضمون ’’مرحوم کی یاد میں‘‘ یاد آتا ہے جس میں مرزا کی بائیسکل کا تذکرہ ہے۔ پطرس بخاری اس بوسیدہ بائیسکل سے تنگ آ کر جب اسے فروخت کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو سائیکلوں کی دکان کے آگے جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور دکاندار کو محض یہ کہہ پاتے ہیں ’’یہ سائیکل ہے‘‘ دکاندار کے کریدنے پر جب معلوم ہوتا ہے کہ سائیکل بکنے آئی ہے تو وہ پطرس سے کہتا ہے کہ کوئی اس کو لے کر کیا کرے؟ پطرس جواب دیتا ہے کہ وہ اس پر چڑھے۔ دکاندار جواب دیتا ہے۔ اچھا چڑھ گیا پھر؟ تو پطرس کی طرف سے جواب آتا ہے تو پھر اس کو چلائے۔ جس کے بعد دکاندار طنزیہ کہتاہے کہ اچھا‘ تو یہ چلتی بھی ہے۔ ہمارے ہاں ہر بچے کو سکول پہنچا کر روشن خیال نصاب سے روشناس کرنے کے پروگرام پر میرا سوال بھی اسی دکاندار والا ہے جس نے پطرس سے کہا تھا کہ اچھا چڑھ گیا پھر؟ یعنی چلو یہ بچے سکولوںمیں پہنچ گئے پھر؟ جس طرح پطرس کی بائیسکل چلنے کے قابل نہیں تھی اس طرح ہمارا تعلیمی نظام بھی تو بالکل بوسیدہ ہے۔ دیہی علاقوں میں جہاں خواندگی کا مسئلہ زیادہ گمبھیر ہے۔ وہاں کتنے اور مسائل موجود ہیں اُن سے کون واقف نہیں۔ ایک طرف تویہ ناگفتہ بہ صورتحال ہے اور دوسری طرف ملالہ بی بی ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں کتاب لے کر طالبان کے خلاف مغربی دنیا کی مکمل حمایت و تعاون کے ساتھ میدان عمل میں Gladiator کی مانند اتری ہے۔ یہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ کچھ معلوم نہیں کیونکہ طالبان سے جنگ قلم اور کتاب کی جنگ نہیں ہے۔ طالبان تو نازیوں کی طرح کی ایک جماعت ہے جن کے دل میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ جو ان کا ہم خیال نہیں ہے وہ واجب القتل ہے۔ یعنی یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف وہ ہی مسلمان ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک خود اس قوم کے نفس میں تبدیلی واقع نہ ہو مگر طالبان اس فرمان الٰہی پر ایمان کے بجائے تشدد اور خودکش حملوں کے ذریعے پاکستانی قوم کا مزاج درست کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قلم اور کتاب کے طعنے دینا بے معنی سی بات ہے۔ طالبان کے کسی لیڈر نے ملالہ کو جو خط لکھا ہے اس میں انہوں نے مغربی دنیا‘ مسلمانوں کے خلاف جس پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ بہت سی باتوں سے ہم آپ سے متفق بھی ہیں مگر جو لائحہ عمل ہے وہ تو تشدد اور خودکش حملے ہیں وہ بھی اپنی فوج کے خلاف، اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف۔ ایسی پالیسی سے کون متفق ہوسکتا ہے۔ طالبان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس قرآنی آیت کا شعور رکھتی ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہوسکتے لیکن پوری دنیا میں مسلمان ملکوں میں جس قدر بے اتفاقی پائی جاتی ہے، لڑائی جھگڑے ہیں، سنیّ شیعہ بلاک بنے ہوئے ہیں، ان سب باتوں سے بھی تو ہم واقف ہیں۔ یہ اتنے گمبھیر اور پیچیدہ مسائل ہیں کہ ان کو اللہ کی ذات ہی حل کرسکتی ہے اور اس کا فارمولا وہی ہے کہ مسلمان پہلے اپنے دلوں کے اندر تبدیلی کی خواہش پیدا کریں پھر اللہ اسباب پیدا کردے گا۔ طالبان اگر قرآن پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کو اس پہلو پر بھی غور کرناچاہیے اور ایسا طرز عمل اپنانا چاہئے کہ مسلمانوں کے دلوں کے اندر موجود شیطان پر بم دھماکے ہوں، وگرنہ لوگوں کو بلاوجہ مارنے سے دلوں کے اندر وہ تبدیلی کبھی نہ آپائے گی جو اللہ نے کسی قوم کی حالت بدلنے کے لیے شرط رکھی ہے۔ جہاں تک بچوں کو سکولوں تک پہنچانے کا اربوں روپے کا پنجاب میں برطانوی حکومت کا پروگرام ہے اس میں محض اگر یہ اعلان کردیا جائے کہ پسماندہ دیہی علاقے میں جو ماں باپ اپنے بچے یا بچی کو میٹرک پاس کروا دیں گے ان کو ایک لاکھ انعام دیا جائے گا تو یہ اس رقم کا بہتر استعمال ہوگا وگرنہ پنجاب حکومت نے تعلیم کے شعبے میں جو رقم خرچ کرنی ہے وہ تو کہیں اور صرف ہوجائے گی اور برطانوی حکومت کی امداد سے محکمہ تعلیم کے معمول کے اخراجات پورے ہونے لگیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں