تحریک انصاف کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ اللہ نے ان کو طالبان کے جان لیوا حملے سے بچانا تھا جس کے لیے سبب یہ بناکہ وہ ایک روزپہلے اپنی ہی جماعت کے ایک انتخابی جلسے میں سٹیج پر چڑھتے ہوئے لفٹر سے گرگئے اور یوں اگرچہ ان کو کافی گہری چوٹیں آئیں مگر جان بچ گئی۔ مجھے اس بات کا سوفیصد یقین ہے کیونکہ خان صاحب جس نوعیت کا مصمم ارادہ کرتے ہیں اس سے روکنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اُن کو اپنے ارادے پر عمل درآمد کے قابل ہی نہ چھوڑا جائے اور مجبور محض کردیا جائے۔ 11مئی کے انتخابات والے دن عمران خان کو امید نہیں یقین کامل تھا کہ وہ جیت رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کررکھا تھا کہ ہرپولنگ بوتھ پر ان کے پرجوش کارکن اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں۔ اب اللہ نے خاں صاحب کے مقدر میں چونکہ وہ کامیابی لکھی نہیں تھی جس کی وہ بھرپور توقع کررہے تھے۔ الیکشن کے دن ان کے پرجوش کارکن کہیں نظر نہ آئے اور یوں خاں صاحب کے بقول دھاندلی ہوگئی۔ جس طرح خاں صاحب اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے میں مصلحت کا پہلو دیکھتے ہیں اسی طرح ان کو قومی انتخابات میں اور پنجاب کے صوبائی انتخابات میں اپنی ہار میں بھی مصلحت کا پہلو تلاش کرنا چاہیے۔ اس وقت ہمارے خطے میں جو سیاسی حالات ہیں ان پر ایک نظر ڈالیے تو آپ کو دکھائی دے گا کہ امریکہ بہادر افغانستان میں اپنی فوج میں کمی تو کردے گا مگر فی الحال اس کے عزائم یہ ہیں کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی کابل کے حکمران اُس کے زیر اثر رہیں۔ شمال میں پہلے ہی صورت حال امریکیوں کے لیے کافی بہترہے۔ لہٰذا یہ توقع درست نہیں کہ سب امریکی چلے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بھارت بھی ہر صورت افغانستان میں ٹانگ اڑائے رکھے گا۔ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت کو ان سب باتوں کا بظاہر ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ خارجہ امور کے ضمن میں حکومت کی پالیسی میں کافی لچک دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کی فوج نے بھی خطے کی صورتحال پر بہت گہری نظر اس لحاظ سے رکھی ہوئی ہے کہ آنے والے دنوں میں دفاعی نقطہ نگاہ سے جن چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے ان کے لیے تیار رہا جائے۔ گویا خطے کی صورتحال اس وقت انتہائی پیچیدہ ہے۔ اب آپ تصور کیجیے کہ اس وقت اگر عمران خاں وزیراعظم بن جائیں تو کیا نقشہ ہوگا۔ سب سے پہلے تو ہمارا امریکہ سے ایک ایسا ٹکڑائو ہوجائے گا جو ہمیں اور بھی تباہی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ معیشت کو عمران خان کے فارمولے کے مطابق ٹھیک کرنے کی ہرکوشش کے بارآور ہونے میں وقت لگے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان کا معیشت کو ٹھیک کرنے کا فارمولا فیل ہو جائے کیونکہ ہمارے ہاں بڑی تبدیلی کئی ناکامیوں کے بعد ہی آتی ہے۔ تو ہوگا یہ کہ اندرون ملک اقتصادی صورتحال بے یقینی کا شکار ہوگی اور خارجہ حکمت عملی میں ہم ڈرون کے مسئلے پر امریکہ سے لڑرہے ہوں گے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارآور ہونے اور عمران خان کے طریقے سے فاٹا کا مسئلہ حل ہونے کی خود تحریک انصاف کے کئی لوگ بھی زیادہ پُرامید نہیں۔ لہٰذا یہ صورت حال الجھے ہوئے معاملات میں ممکنہ طورپر اور بھی بگاڑ پیدا کرسکتی ہے۔ اب آپ خود اندازہ کر لیں کہ عمران خان کے 11مئی کے انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم پاکستان بننے میں جو قدرت مخل ہوئی تو اسے ہمیں رحمت خداوندی ہی سمجھنا چاہیے اور عمران خان بھی اسے اللہ کی رحمت ہی باور کریں۔ کیونکہ ایسا صاف سیدھا اور کھرا آدمی اگر انتخاب جیت رہا ہوتا تو اس کی جان کو طالبان کے علاوہ دیگر ایسی قوتوں سے بھی خطرہ ہوسکتا تھا جو بیرون ملک سے پاکستان کے اندر کارروائی کرانے کی اہلیت کا بارہا مظاہرہ کرچکی ہیں۔ گویا ایک طریقے سے قدرت نے اگر ایک حادثے میں زخمی کرکے عمران خان کو طالبان سے بچایا تو انتخابات کے نتیجے میں اس کو وزیر اعظم نہ بنوا کر بھی ممکن ہے ایک مرتبہ پھر اس کی جان ہی بچائی ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قدرت ابھی عمران خان کو تربیت کے مراحل سے گزار رہی ہے۔ جب یہ تربیت مکمل ہوجائے گی تو ممکن ہے یہ ملک بھی عمران خان کی قیادت سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوجائے اور یوں پاکستان کی قسمت سنورنے کا عمل شروع ہوجائے۔ ابھی تک تو عمران خان کو Surprisesمل رہے ہیں۔ تازہ ترین Sarpriseخیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کی حکومت ہے۔ یعنی مکمل اطلاع تھی کہ طالبان جیل پر کب اور کس انداز میں حملہ کریں گے‘ اس کے باوجود حملہ ہوا۔ اب ہرکوئی منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ عمران خان کو ایک Surpriseاور بھی مل سکتا ہے۔ وہ ان کے اس دعوے سے متعلق ہے کہ وہ جب چاہیں گے اپنے کارکنوں سے سڑکوں کو بھردیں گے۔ تحریک انصاف کے ووٹر تو بہت ہیں۔ ہمدرد بھی بہت ہیں۔ مگر یہ لوگ سڑکیں بھرنے والے نہیں ہیں۔ ہاں انٹرنیٹ پر ای میلز کے ذریعے In Boxesضرور بھرسکتے ہیں۔ DHAمیں‘ میں نے کئی روز تحریک انصاف کا احتجاجی دھرنا دیکھا۔ تجربہ کار جماعتوں کے دھرنوں کے مقابلے میں اس دھرنے کی حیثیت کافی کمزور تھی۔ کراچی میں تحریک انصاف کا احتجاج نسبتاً متاثر کن تھا مگر وہاں موازنہ ایم کیوایم سے ہوگا۔ جس طرح ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ 1857ء میں اگر انگریز بہادر کے ساتھ شاعری کی جنگ ہوجاتی تو بہادر شاہ ظفر دلی کے شعرا کی مددسے انگریزوں کا بھرکس نکال دیتے۔ اسی طرح اگر کہیں فیس بک اور انٹرنیٹ اور ٹوئیٹر کی جنگ ہوگئی تو عمران خان کے جانثار اپنے حریفوں کے چھکے چھڑادیں گے۔ لیکن یہ جو تحریک انصاف کے کارکنوں سے سڑکیں بھرنے والی بات ہے اس کا خان صاحب فی الحال بھرم ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔