"ARC" (space) message & send to 7575

کرامات

جن لوگوں کا تعویز گنڈے اوردیگر کرشماتی عملوں پر یقین ہوتا ہے ان میں سے کسی کے بھی اس یقین میں کمی آنا کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ غالباً یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کا ون وے ٹکٹ ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اسّی کی دہائی کے آخری حصے میں کچھ عرصے کے لیے میں ریڈیو آزادکشمیر مظفر آباد پر تعینات تھا۔ وہاں محمود احمد میرے ساتھی ایک سینئر پروڈیوسر ہوتے تھے۔ اب تو موصوف اس دنیا میں نہیں لیکن جب حیات تھے تو کوئی حساب لگا کر بتایا کرتے تھے کہ 2026ء تک اس دنیا میں رہیں گے۔ میں جب نیا نیا وہاں پہنچا تو کہنے لگے کہ سٹیشن ڈائریکٹر سے کوئی کام ہو تو مجھے بتانا۔ میں نے کہا کیا تمہارے دوست ہیں؟ بولے نہیں بات اس سے بھی آگے کی ہے۔ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے‘ میں نے ان کی میز کے ایک پائے کے نیچے تعویز دبا رکھا ہے۔ میری کسی بات کا انکار کر ہی نہیں سکتے۔ خیر یہ نوبت تو نہیں آ سکی کہ میں ان کے تعویز کی طاقت کا فائدہ اٹھاتا لیکن یہ میں تقریباً روز ہی دیکھتا کہ موصوف کے دفتر آنے سے پہلے ان سے روحانی مشورے کرنے والے دو تین افراد ان کی میز کے سامنے کرسیوں پر براجمان ہوتے تھے۔ میری میز بھی اسی کمرے میں تھی لہٰذا میں جبری طور پر عینی شاہد تھا۔ محمود صاحب کسی کو بتاتے تمہارا برج جدی ہے اس برج پر آج کل ساڑھ ستی چل رہی ہے۔ یعنی آزمائش کے ساڑھے سات سال ہیں۔ کسی کو کہتے ہیں کہ پہاڑ پر پیر صاحب سے اگلے ہفتے تمہیں تعویز لادوں گا۔ یہ شوگر وغیرہ سب ختم ہوجائے گی۔ اس روحانی پریکٹس کے ساتھ ساتھ موصوف دفتر کا کام بھی کرتے تھے۔ کمال کے براڈ کاسٹر تھے۔ ایک فیچر پروگرام پیش کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ نہ کوئی مسودہ ہوتا تھا نہ فیچر کے دیگر کرداروں کو کچھ بتاتے تھے۔ وقت نشر پر ساری کاسٹ کو ہمراہ لے کر سٹوڈیو میں چلے جاتے تھے اور فی البدیہہ گفتگو شروع کردیتے تھے۔ کاسٹ کا کوئی رکن کچھ کہہ دے اس کے جواب میں کبھی شگفتہ گفتگو کرکے آگے بڑھ جاتے اور کبھی انتہائی سنجیدہ گفتگو کرکے کاسٹ کے کسی اور رکن سے مخاطب ہوجاتے۔ انتہائی مقبول ریڈیو پروگرام تھا۔ اپنے اس ہنر کوبھی وہ پہاڑ پر رہنے والے اپنے پیر صاحب کی کرامت خیال کرتے تھے۔ ایک روز میرے ساتھ بیٹھے تھے کہ بولے۔ یار یہ جو اکائونٹنٹ ہے اس پر کوئی تعویز اثر ہی نہیں کرتا۔ پیر صاحب نے مٹی دم کرکے دی تھی وہ بھی میں نے اس کے کمرے میں پھیلائی مگر کچھ اثر نہیں ہوا۔ میں نے پوچھا۔ تمہیں اکائونٹنٹ سے تکلیف کیا پہنچتی ہے۔ بولے میرے ٹی اے، ڈی اے کے بل پاس نہیں کرتا۔ میں نے کہا تم کہیں جاتے تو ہو نہیں تو پھر ٹی اے، ڈی اے کیسا۔ کہنے لگا اس کو چھوڑو۔ پہلے بیس فیصد حصہ لے کر بل پاس کر دیتا تھا اب آدھا حصہ مانگتا ہے۔ یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔ تھوڑی دیر ہم خاموش رہے اس کے بعد وہ کہنے لگا یار تم امریکہ میں رہ کر آئے ہو تم کوئی دنیا داری کا طریقہ بتائو۔ ورنہ اس اکائونٹنٹ کو رام کرنے کے لیے مجھے اوکاڑے جانا پڑے گا۔ میں نے اوکاڑے کے بارے میں پوچھا تو وہاں رہائش پذیر کسی ’’کرامت والے‘‘ کے قصے سنانے لگے۔ کوئی دو دن بعد پھر میرے پیچھے لگ گئے۔ کہنے لگے۔ یار تمہارے امریکہ جانے کا کیا فائدہ کہ تم اتنا سا کام بھی نہیں کرسکتے۔ اس کا یہ طعنہ سن کر ایسے ہی میرے منہ سے نکل گیا کہ بھئی امریکہ میں اگر کسی سے کوئی کام نکلوانا ہو تو اس کو بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ سن کر یکدم خوش ہوئے اور بولے ’’تو پھر‘‘ میں نے کہا کیا مطلب۔ بولے: تو پھر طریقہ بتائو نا بلیک میل کرنے کا۔ اس وقت میز پر چھوٹا ٹیپ ریکارڈر پڑا تھا۔ میں نے کہا یہ ٹیپ ریکارڈر چھپا کر لے جائو اور اکائونٹنٹ سے حصہ پتی کی گفتگو ریکارڈ کرلو۔ بولا یہ تو میں کرلوں گا۔ میں نے کہا پھر وہ گفتگو اکائونٹنٹ کا جو اسسٹنٹ ہے اس کو سنوا کر کہو کہ یہ اب عدالت میں جائے گی۔ اصل میں اس طریقہ واردات کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہیں کسی ریڈیو سٹیشن پر یہ واقعہ ہوچکا تھا اور میرے علم میں تھا۔ محمود صاحب یہ کام دو دنوں میں ہی کر گزرے اور چونکہ ڈرامہ آرٹسٹ بھی تھے ایسے موثر انداز میں بلیک میل کیا کہ اکائونٹنٹ نے مکمل تعاون شروع کردیا۔ کچھ دنوں بعد چھٹی لے کر محمود صاحب پہاڑ پر اپنے پیر صاحب کے پاس حاضری دینے گئے۔ واپسی پر کہنے لگے میں نے سارا واقعہ پیر صاحب کو بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ امریکہ پلٹ شخص مٹی کی کرامت سے یہاں آیا ہے اور اس نرم کی ہوئی مٹی کی کرامت ہی سے اس نے تمہاری مدد کی ہے اور تم دیکھنا تھوڑے عرصے میں اب اس شخص کا یہاں سے تبادلہ ہوجائے گا۔ میری پوسٹنگ مظفر آباد میں ہوئی۔ مختصر عرصے کے لیے تھی لہٰذا میرا ٹرانسفر آرڈر پہلے ان کے علم میں آیا۔ فوراً مجھے اطلاع دی ’’پیر صاحب کی بات درست نکلی نا۔ آگئے ہیں آپ کے ٹرانسفر آرڈر‘‘ اس کے بعد جب میں مظفر آباد سے روانہ ہورہا تھا تو کہنے لگے کبھی کوئی کام ہو۔ مجھے فون کردینا۔ میں کیا کہہ سکتا تھا اس کے سوا کہ ’’اچھا بھئی‘‘ میری ایک رشتے دار خاتون ہیں۔ دو گھنٹے سے کسی ٹیلیویژن چینل کے پروگرام کو فون ملانے کی کوشش کررہی تھیں۔ اس پروگرام میں کوئی ’’نیک‘‘ ہستی روحانی طریقے سے ناظرین کے مسائل حل کرنے میں مصروف تھی۔ میں نے اپنی رشتہ دار خاتون سے پوچھا کہ کس تکلیف کا علاج ڈھونڈ رہی ہیں۔ بولیں: بلڈ پریشر رہتا ہے۔ پاس بیٹھے موصوفہ کے برخوردار بولے‘ انکل، امی جتنا وقت فون ملانے میں صرف کرتی ہیں اگر اتنا وقت پیدل چل لیا کریں تو ان کا بلڈپریشر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس کے جواب میں موصوفہ نے بیٹے کو گھور کر دیکھا اور مجھے کہنے لگیں، باپ کی محبت میں بے ادب ہوگیا ہے، بھائی آپ برا نہ منائیں۔ اس کے بعد پھر فون ملانے میں مصروف ہوگئیں۔ خاتون جس جذبے سے فون ملا رہی تھیں اس کودیکھ کر مجھے اتنا حوصلہ نہ ہوا کہ اس کے سامنے اس کے بیٹے سے کہہ سکوں کہ ’’برخوردار میں تم سے متفق ہوں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں