حالیہ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک اہم قومی سطح کے رہنما کے طور پر ایک واضح مقام حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم انتخابات سے قبل جس رفتار سے وہ خود اور ان کی جماعت قومی زندگی میں مثبت کردار ادا کرنے کے حوالے سے آگے بڑھتے دکھائی دے رہے تھے وہ رفتار اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف تھم گئی ہے بلکہ شاید اس کا رخ بھی پلٹ گیا ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو تحریک انصاف سے دوری پر محسوس کررہی ہیں جبکہ عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے بے بنیاد قسم کے الزام کو سنجیدگی سے ایک الزام باور کرکے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہے اور اپنے آپ کو بظاہر ایک زیرک سیاسی کھلاڑی کے بچھائے جال میں پھنسا لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت اگرچہ بالکل نئی ہے لیکن ا بتدائی کارکردگی سے اس وقت، اندازہ یہی ہورہا ہے کہ اس صوبائی حکومت کو اپنے دعوے کے مطابق ایک مثالی حکومت بنا کر چلانا عمران خان کی جماعت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن جائے گا۔ عمران خان جب سے میدانِ سیاست میں آئے ہیں ان کی ایمانداری کا مثبت تاثر ان کی بہت مدد کرتا رہا ہے۔ ہمارے ملک کا نوجوان طبقہ جو کہ پرانے سیاستدانوں کے جھوٹ اور منافقت سے تنگ تھا، عمران خان کو ایک کھرا اور سچا شخص جان کر تحریک انصاف کی حمایت میں آیا اور پھر انتخابات میں ووٹوں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے عمران خان کی جماعت ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آگئی۔ اگرچہ انتخابات میں دھاندلی کا ہر طرف شور ہے مگر ملک بھر میں عمومی تاثر یہی ہے کہ مسلم لیگ ن تاحال تحریک انصاف سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ انتخابات میں اس مبینہ دھاندلی سے نمٹنے کا جو طریقہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے اختیار کیا ہے وہ بھی بظاہر اس جماعت کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچا رہا ہے۔ جب محترم عمران خان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ الیکشن والے دن ان کی جماعت کے کارکن پولنگ سٹیشنوں پر نگہداشت کا وہ کردار ادا نہیں کرسکے جس کی توقع تھی تو پھر اس قدر شور مچانا کہ دھاندلی ہوگئی بے معنی سی بات ہے۔ جہاں جہاں دھاندلی کے ثبوت موجود ہیں وہ الیکشن ٹربیونل میں پیش کیے جاسکتے ہیں اور تحریک انصاف ایسا کر بھی رہی ہے کیونکہ اس مرتبہ ٹربیونلز کو الیکشن کمیشن نے 120 دن کے اندر اندر فیصلہ کردینے کا حکم دے رکھا ہے۔ اگر ٹربیونلز تحریک انصاف کے حق میں فیصلے دیتے ہیں تو پھر بعد میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ تک ہونے والی اپیلوں سے معاملہ طول تو کھینچ سکتا ہے مگر ٹربیونلز کے ان فیصلوں سے تحریک انصاف کی سیاسی جیت ہوچکی ہوگی۔ اس وقت یہ سیاسی جیت ہی تحریک انصاف کی ضرورت ہے۔ اس واضح منظر نامے کی موجودگی میں سپریم کورٹ سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ تحریک انصاف کے بتائے ہوئے چار انتخابی حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی Biometric Authentication کا حکم دے ناقابل فہم مطالبہ ہے۔ فرض کریں اگر عدالت عظمیٰ ایسا حکم دے دیتی ہے تو الیکشن کے حوالے سے تقریباً ہر حلقے میں دوسرے نمبر پر ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کا مطالبہ ہوگا کہ اس کے حلقے میں بھی سپریم کورٹ Biometrics کا حکم جاری کرے۔ آپ خود سوچیں کہ سپریم کورٹ کو کتنے ایسے احکامات جاری کرنے ہوں گے۔ چلیں لمحے بھر کو مان لیں کہ ایسا بھی ہوجاتا ہے اور انگوٹھوں کے نشانات چیک ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ لاتعداد نشاناتِ انگوٹھا ایسے ہوسکتے ہیں جن کی شناخت اس وجہ سے نہ ہو پائے گی کہ جن Stamp Pads کے ذریعے انگوٹھے لگائے گئے، ان پر عام طور سے نیلے رنگ کی روشنائی ضرورت سے زیادہ تھی۔ ماہرین اور بھی بہت سے مسائل کی اس حوالے سے نشاندہی کرتے ہیں مگر یہاں تو بات نشان انگوٹھا پر ہی رک جائیگی۔ جب آپ پاسپورٹ بنوانے جاتے ہیں تو جس انداز سے نشان انگوٹھا لیا جاتا ہے اور ساتھ ہی کمپیوٹر پر نظر آتا ہے اس انداز سے اگر انگوٹھے کا نشان لیا جائے تو وہ قابل شناخت ہوتاہے۔ تو بہرحال اس تمام پس منظر میں عمران خان کا عدلیہ کے انتخابات کے انعقاد میں کردار کو شرمناک کہنا ہے۔ سیاسی طور پر ان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ اب موصوف احتیاط برتتے ہوئے عدلیہ کے بجائے ریٹرننگ افسروں کے کردار کو شرمناک کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ معاملہ عدالت میں ہے۔ عدالت کے نوٹس سے پہلے عمران نے پریس کانفرنس میں بڑی وضاحت سے اپنا دکھ بیان کیا کہ انہوں نے محض چار انتخابی حلقوں میں Biometrics کی درخواست کی تھی۔ اب بندہ ان سے پوچھے کہ آپ نے کیا ریٹرننگ افسروں سے یہ درخواست کی تھی؟ یہ درخواست تو سپریم کورٹ سے کی گئی تھی۔ میں اس موقع پر عمران خان صاحب کو یاد دلائوں گا کہ انتخابات سے پہلے مینار پاکستان پر تحریک انصاف نے ایک بہت بڑا جلسہ کیا تھا جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے قوم سے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کچھ وعدے کیے تھے جن میں پہلا وعدہ یہ تھا کہ وہ ہمیشہ قوم سے سچ بولیں گے۔عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو ایمان کی نعمت سے نوازا ہے۔ اب ان کے ایمان کا بھی تقاضا ہے کہ اور مینار پاکستان پر جلسے میں قوم سے ہمیشہ سچ کہنے کے وعدے کا بھی تقاضا ہے کہ وہ سچ بولیں۔ خان صاحب سپریم کورٹ میں جب پیش ہوں تو ان کا بیان اس قسم کا ہونا چاہیے۔ ’’میری جماعت نے اور میں نے چونکہ عدلیہ کی بحالی میں موثر کردار ادا کیا تھا لہٰذا میری یہ تمنا تھی کہ چار انتخابی حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات چیک کرنے کی میری درخواست کو عدلیہ پذیرائی بخشے گی۔ اب مجھے احساس ہوا ہے کہ میری اپنی خواہش شرمناک تھی۔ میرے جس بیان پر عدالت ناراض ہے میں اس پر شرمندہ ہوں اور عدالت سے معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘ میری رائے میں یہ تو ہوگا سچ جس کا عمران خان نے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر قوم سے وعدہ کیا تھا۔ باقی اگر وہ قانونی موشگافیوں میں عدالت کو الجھا کر معاملے کو طول دینا چاہیں تو ان کی مرضی۔