ویسے تو وینا ملک جب تک پاکستان میں رہیں مختلف حوالوں سے متنازع ہی رہیں تاہم جب سے بھارت تشریف لے گئی ہیں تو ان کی طرف سے نئے سے نیا کارنامہ سامنے آرہا ہے۔ آئی ایس آئی کا ٹھپہ بازوپر لگوا کر ایک رسالے کے لیے ایسی تصویریں اتروانا جن پر کم سے کم تبصرہ یہ ہے کہ قابلِ اعتراض ہیں اور زیادہ سے زیادہ تو بہت ہی زیادہ ہے یعنی یہ تک کہا گیا کہ موصوفہ نے جان بوجھ کر اسلامی اقدار کا قتل کیا اور ہمارے قومی ادارے کا مذاق اُڑا کر ملک دشمنی کا مظاہرہ کیا۔بھارت کی فلمی صنعت کے حوالے سے موصوفہ نے جس طرح کھل کر مناظر فلم بند کروائے اور ان کا دفاع کیا‘ اس سے بھی ہمارے قارئین واقف ہیں۔ اور اب تازہ ترین خبر جو وینا ملک کے حوالے سے آئی ہے‘ یہ ہے کہ اپنے گھر میں انہوں نے ہندومت کے دیوتا گنیش مہاراج کی مورتی رکھ لی ہے اور میڈیا میں بیان جاری کیا ہے کہ گنیش بھگوان آج کل ان کے مہمان ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر وینا ملک یہ سب کچھ کیوں کررہی ہے۔ بظاہر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ وینا ملک چونکہ بھارتی شہری نہیں ہے اور موصوفہ کو بھارت میں رہنا ہے لہٰذا اس کو یہ کچھ کرنا پڑرہا ہے۔ یعنی وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے جو ضروری سمجھتی ہیں‘ کرگزرتی ہیں اور اس بات سے بے نیاز ہیں کہ وہ حرکت غیر اخلاقی ہے یا جس مذہب کی پیروکار ہونے کا وہ دعویٰ کرتی ہیں اس کی تعلیمات کے یکسر مخالف ہے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں اپنا کام نکلوانے کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کا کلچر کتنا عام ہوچکا ہے۔ کس طرح ہمارے ہاں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے دینی اقدار پامال کی جاتی ہیں اور انہیں مجبوری کا نام دیا جاتا ہے اور اسی طرح اگر ضرورت پڑے تو اخلاقیات کا جنازہ نکال کر کہا جاتا ہے ’’کیا کرتے بھئی‘آخر زمانے کے ساتھ بھی تو چلنا ہے ‘‘۔ اس ضمن میں کوئی مثال دینا ضروری نہیں‘ آپ اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں آپ کو اس طرزِ عمل کے کھلے شواہد کثیر تعداد میں مل جائیں گے۔ حکومتی سطح پر اس طرزِ عمل کی مثالیں بھی روزہی سامنے آتی رہتی ہیں۔ بھلا اس امریکی ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ کس کو یاد نہیں۔ دوانسانوں کو دن دیہاڑے قتل کیا۔ پکڑا گیا۔ ایسے ایسے بیانات شروع میں سامنے آئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ موصوف پھانسی کی سزاپائیں گے مگر ساتھ ہی یہ چہ میگوئیاں بھی سنائی دیتی تھیں کہ امریکہ اپنا بندہ چھُڑا کر لے جائے گا۔ پھر آخروہی ہوا جو آج کل وینا ملک بھارت میں اپنا قیام خوشگوار بنانے کے لیے کررہی ہے۔ یعنی حکومت نے اپنا کام نکلوانے کے لیے اور امریکیوں کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے دیت کے اسلامی قانون کا جس طرح استعمال کیا وہ کس سے چھپا ہوا ہے ۔ خودغرضی کے اس کلچر کا ایک اور انتہائی اہم مظاہرہ کراچی میں ہونے والے شاہ زیب نامی اس نوجوان کے قتل کے حوالے سے اخباروں کی زینت بن رہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتہائی متمول گھرانے کے جس نوجوان نے شاہ زیب کو قتل کیا تھااور عدالت میں ہرپیشی پر انگلیوں سے وکٹری یعنی فتح کا نشان بناکر دکھاتا تھا اور پولیس والوں کے ساتھ بیٹھ کر قیدی کے طورپر دال روٹی کھانے کے بجائے برگر وغیرہ کھاتا دکھائی دیتا تھا اس کو بھی ریمنڈ ڈیوس کی طرح دیت کے اسلامی قانون کا سہارا مل رہا ہے۔ اس کیس میں بھی یقینا مجبوریاں درپیش ہوں گی جس طرح وینا ملک کو مجبوریاں درپیش ہیں۔ اگر وہ بھارت میں رہنا چاہتی ہے تو اس کو یہ سب کچھ کرنا ہوگا۔ شاہ زیب کے قاتل نوجوان کو چھڑوانا اس کے ماں باپ کی مجبوری ہے لہٰذا جو ممکن ہوگا وہ کریں گے اور ہمارے ہاں تو سب چلتا ہے۔ جس خودغرضی کے کلچر کی میں نے مثالیں پیش کی ہیں اس میں پرورش پاکر اگر کوئی نوجوان لڑکی وینا ملک جیسی حرکتیں کرنے لگے تو ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ معاشرے کے یہ منفی رجحانات مستقبل میں ہمیں کہاں لے جائیں گے۔ عمرانیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ معاشروں میں جوافراد منفی رجحانات کو تیزی سے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اگرچہ آپ کو الگ تھلگ دکھائی دیتے ہیں مگر دراصل ایسے افراد آپ کو بتارہے ہوتے ہیں کہ مستقبل میں ان جیسے بہت سے افراد یہی معاشرہ پیدا کرے گا۔ اس لحاظ سے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ جس سمت میں جارہا ہے اس میں مستقبل میں وینا ملک جیسے کرداروں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ زہریلے دودھ سے جو مکھن بنتا ہے وہ بھی زہریلا ہی ہوتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دنیا کے سامنے مسلمان ملک کے طورپر پیش کرتے ہیں مگر ہمارے لوگوں اور ہماری حکومتوں کے طرزِعمل سے اسلامی اور اخلاقی دونوں اقدار کی پامالی واضح ہوتی ہے۔ بھارت عملی طورپر ایک ہندو ریاست ہے۔ اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہندو اور سیکولر دونوں الفاظ اچھے نہیں سمجھے جاتے لیکن آپ کو بھارت میں قانون کی عملداری کے ریمنڈ ڈیوس اور شاہ زیب قتل کیس جیسے واقعات نہیں ملتے بلکہ ان کا سسٹم اپنے ایک مقبول فلم سٹار سنجے دت کی قید معاف کرنے کا بھی کوئی بہانہ نہیں تراشتا۔ بھارت میں بہت سی خامیاں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن وہاں عمومی طورپر جو معاشرے کی سمت دکھائی دیتی ہے وہ ہمارے ملک کی نسبت عدل وانصاف کے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا لیکن اس ملک کے قیام کے وقت سے ہم اسلامی اقدار سے کوئی عملی رہنمائی حاصل نہیں کرسکے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی آثار ہیں کہ ارباب حل وعقد ایسا کریں گے۔ ہماری اسی بے عملی کی وجہ سے آج طالبان ہمیں شریعت نافذ نہ کرنے کے طعنے دیتے ہیں۔ اگر ہم جدید دورسے ہم آہنگ اسلامی اقدار نافذ کردیتے تو طالبان پیدا ہی نہ ہوتے۔ اب ہماری بے عملی کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف وینا ملک جیسے کردار پیدا ہورہے ہیں اور دوسری طرف انتہا پسند طالبان۔ اسلام کہتا ہے کہ اعتدال بہترین راستہ ہے اور اس طرف نہ کبھی ہم نے توجہ دی ہے اور نہ ہی آئندہ دینے کا کسی کا ارادہ دکھائی دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود غرضی کا کلچر اور بھی مضبوط ہوتا جارہا ہے۔