بنی اسرائیل جب فرعون کی طاقت کے نیچے دبے ہوئے تھے تو ان کی حالت غالباً ایسی ہی ہوگی جیسی آج کل مسلم دنیا کی مغربی دنیا کے دبائو کے تحت ہے۔ فرعون بنی اسرائیل کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ مغرب نے مسلمان ملکوں میں بھاری تعداد میں لوگوں کے قتل پر منتج ہونے والی پالیسیاں اپنا رکھی ہیں مگر ساتھ ہی مسلمان معاشروں میں عورتوں کو کھلی چھوٹ دیے جانے کی جو حکمت عملی اپنا رکھی ہے اس سے فرعون کے (بنی اسرائیل کی بیٹیوں کو زندہ رکھنے کے پیچھے چھپے )مذموم مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔ پاکستان، مغربی دنیا کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے‘ اس توجہ کے اتنے پہلو ہیں کہ سب کا اگر اکٹھا ذکر کیا جائے تو صورتحال ناقابل فہم ہوجاتی ہے۔ پاکستان اتحادی بھی ہے‘ اور مغرب کا دوست ملک بھی،اسے اربوں ڈالر کی امداد بھی مل چکی ہے۔ سوویت یونین کابیڑہ غرق کرنے میں اس نے مغربی دنیا کی بے مثال امداد بھی کی ہوئی ہے۔ برطانیہ کاوزیراعظم ہمارے وزیراعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہتا ہے کہ آپ کا دوست ہمارادوست ہے اور آپ کا دشمن ہمارا دشمن۔ اتنی ساری مثبت باتوں کے باوجود پاکستان پر رتی برابر اعتبار نہیں کیا جاتا۔ہمارے جوہری پروگرام کو پوری دنیا کے لیے خطرے کے طورپر لیا جاتا ہے حالانکہ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے آج تک اس پروگرام پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکی۔ ہمارا تعلیمی نظام اس لحاظ سے تنقید کا نشانہ بنتا ہے کہ نصاب میں ہمارے اسلامی مشاہیر کا ذکر کیوں ہے؟ جہاد کا لفظ کیوں موجود ہے؟ ناموس رسالت کی حفاظت کے ہمارے قوانین کو تبدیل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس صورتحال میں ہفتہ 21ستمبر کو اسی اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم میں محترم امیرحمزہ نے پاکستان میں طالبان کے ساتھ ٹکرائو کی کیفیت کا جو حل پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان جس نظریے کو کٹر اور بے رحم انداز میں آگے بڑھارہے ہیں اسی نظریے کو ہماری حکومت اگر نرم اور رحمدلانہ انداز میں آگے بڑھائے تو طالبان بے بنیاد ہوجائیں گے اور ان کی لڑائی کا اخلاقی اور اسلامی جواز ختم ہوجائے گا۔ بہترین تجویز ہے، بات دل کو لگتی ہے‘ خاص طورپر کالم میں آگے چل کر امیرحمزہ صاحب نے مدینہ کی ریاست اور پھر ترکی کی مثالیں دے کر اسلامی روایات کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنے کی جوبات کی ہے تو اس سے یہ تجویز اور بھی دلنشین ہوجاتی ہے۔کاش ایسا ہوجائے۔ ذوالفقار علی بھٹو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے چیئرمین تھے ،جب ان طاقتوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اس شخص کوعبرتناک مثال بنادینا ہے ،پھر دیکھ لیں بھٹو صاحب کو پھانسی کے تختے تک پہنچا کر ایک خوفناک مثال بنادیا گیا۔ ان طاقتوں کا ہمارے ملک پر کتنا مضبوط شکنجہ ہے اس کا غالباً ہم پاکستانیوں کو پوری طرح اندازہ ہی نہیں ۔ نو آبادیاتی دور میں انگریز کو برصغیر کی آبادی پر جس قدرکنٹرول حاصل تھا اس کا موازنہ اگر ہم اس صورتحال سے کریں جس میں آج کل ہم (پاکستانی )پھنسے ہوئے ہیں(بھارت کو اس بحث سے الگ رکھیں) تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہمارے گرد نوآبادیاتی حصار ماضی کی نسبت زیادہ سخت ہے۔ پرانے زمانے میں انگریزوں کو فکر ہوتی تھی کہ مقامی آبادی اگر اٹھ کھڑی ہوئی تو صورت حال بہت گمبھیر ہوجائے گی لہٰذا وہ کافی حدتک مقامی آبادی کو مطمئن رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ آج کل ان کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے تو ایک حکومت چلی جائے گی اور اس کی جگہ لینے والی دوسری حکومت بھی مغربی ایجنڈے پر عملدرآمد کی پابند ہوگی اور اگر پابند نہیں ہوگی تو اُسے بھی بدل دیا جائے گا۔ مغربی دنیا کا یہ نیا نوآبادیاتی حصار ماضی والے سے بھی زیادہ تلخ ہے۔ اس کے شکنجے میں جو ملک پھنس جائے وہ سانس تو لیتا رہتا ہے مگر زندگی سے بہت دور ۔ ہماری بھی آج کل یہی کیفیت ہے۔ ہم پرمسلط کی گئی پالیسیاں ہمیں محض سانس لینے دے رہی ہیں۔ زندگی کی رمق ہم میں نہیں ہے۔ ان حالات میں آئیے فرض کرلیں کہ ہماری حکومت، امیر حمزہ صاحب کی تجویز کے مطابق اسلامی روایات کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنے کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیتی ہے۔ پہلے مرحلے میں بلاسود معیشت کے لیے اصلاحات کرتی ہے ، دوسرے مرحلے میں اسلامی نظام عدل سے رہنمائی لیتے ہوئے اپنا عدالتی نظام ایسا بنالیتی ہے کہ جرائم کی بیخ کنی ہوسکے اور پھر فواحش کی مکمل حوصلہ شکنی کردیتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طالبان کی عوامی حمایت بالکل ختم ہوجاتی ہے اور ہماری فوج چند ہفتوں میں آپریشن کرکے اس بغاوت کا خاتمہ کردیتی ہے۔ یہ مفروضہ کتنا حسین ہے۔ مگر ہے یہ مفروضہ ۔ جن طاقتوں نے پاکستان کو نوآبادیاتی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے وہ غافل نہیں ہیں۔ وہ تو پہلا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت کا کام تمام کرادیں گی۔ اور یہ بات حکومت کے ارباب اختیار کو بھی پتہ ہے۔ محترم امیرحمزہ صاحب کی تجویز ایسی دلنشین خواہش ہے جس کے پورا ہونے کے لیے دل سے دعا اٹھتی ہے۔ بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دینے کے لیے پروردگار نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تھا۔ مسلمانوں کے لیے فرعونوں سے نجات کے لیے قرآن اور سنت رسولؐ موجود ہے۔ ہماری قوم قرآن کے پیغام اور سنت رسولؐ سے غافل ہونے کی وجہ سے ہی مغرب کے اس نوآبادیاتی شکنجے میں ہے۔ اس وقت نہ یہ غفلت ختم ہونے کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی نوآبادیاتی شکنجہ ہی ٹوٹتا دکھائی دیتا ہے۔ اخلاقی اور معاشرتی طورپر ہماری قوم مسلسل تباہی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ہماری صورتحال یہ تھی کہ رحمن کیانی نے ایک طویل نظم میں گرتی ہوئی اخلاقی حالت کا رونا روتے ہوئے کہا تھا۔؎ سڑکوں پر ناچتی ہیں کنیزیں بتولؓ کی اور تالیاں بجاتی ہے امت رسولؐ کی اب ساٹھ سال بعد سیدہ بتولؓ کی کنیزیں کیا کررہی ہیں اور رسولؐ کی امت کیا کررہی ہے۔ یہ آپ مجھ سے بھی بہتر جانتے ہیں۔