پرور دگار نے کلامِ پاک میں بار بار عقل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ قرآن پاک کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ ایمان اور عقل کا چولی دامن کا ساتھ ہے مگر مسلمانوں کی تاریخ اس امر کی گواہی پیش کرتی ہے کہ ملت اسلامیہ میں شروع ہی سے ایسے پرجوش گروہ پیدا ہوتے رہے ہیں‘ جن کے ہاتھ سے عقل کا دامن چھوٹ جاتا رہا ہے۔ پہلی اور انتہائی واضح مثال حضرت علیؓ کے دور میں فتنہ خوارج کی ہے۔ یہ خارجی لوگ اپنی عبادتوں پر تو بہت نازاں تھے مگر ان کی فہم و فراست کا یہ عالم تھا کہ جلیل القدر خلیفہ راشد‘ امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ کا مقام پہچاننے سے غافل رہے۔ بعدازاں مسلمانوں میں جو شدت پسند فرقے پیدا ہوئے وہ بھی ایمان کے دعویدار مگر عقل سے عاری تھے۔ جنہیں بدقسمتی سے ہمیشہ ہی اپنے جیسے متبعین کی کثیر تعداد میسر آ جاتی رہی ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر جب ہم آج کے دور میں آتے ہیں تو فوراً یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ القاعدہ اور طالبان وغیرہ بھی اسی قبیل کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ اپنی جدوجہد کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اسلامی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے نوے کے عشرے کے آخری حصے میں افغانستان میں اسلامی ریاست قائم کر لی تھی مگر مغربی ملکوں نے نائن الیون کے بعد اس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا اور یہ کہ اب وہ اس غاصبانہ قبضے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ طالبان کا یہ موقف بالکل درست ہے ۔ کم از کم افغانستان کے اندر ان کا جہاد بھی جائز ہے لیکن ملا عمر کے ان پروانوں نے کبھی سوچا ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے‘ کیا اس میں یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے زیر تسلط کسی بھی علاقے میں اپنا دارالحکومت قائم کر سکتے ہوں؟ مقامی آبادیوں کے اندر چھپ کر رہتے ہوئے تو دارالحکومت قائم نہیں ہو سکتا۔ قندھار پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد فرض کریں اگر طالبان اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنا لیتے ہیں تو آپ خود سوچیں کہ اس شہر کو تباہ کرنے میںنیٹو اور امریکی افواج کو کتنا وقت درکار ہو گا۔ اسی طرح فرض کریں کہ بیشتر امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد طالبان کا بل پر قبضہ کر لیتے ہیں تو خود اندازہ کر لیں کہ وہ قبضہ کتنا عرصہ برقرار رہ سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کی اس حوالے سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر نظر ہے۔ وہ یہاں اپنا مرکز قائم کر کے مشرقی اور جنوبی افغانستان کو امارت اسلامیہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر واقعتاً یہ سوچ طالبان کی ہے تو یہ سوچ بھی عقل سے عاری معلوم ہوتی ہے۔ وہ کیا مرکز ہوگا جہاں ان کا لیڈر ڈرون حملے سے چھپتا پھرتا ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا ہونا نہیں چاہیے کہ کوئی امارت اسلامیہ قائم ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ عقل ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم بین الاقوامی صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کرکوئی لائحۂ عمل بنائیں۔ کون نہیں جانتا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد مغربی ممالک، صرف اور صرف مسلمانوں کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا کا بہترین جنگی سازو سامان اور جدید ترین ٹیکنالوجی مغرب کی ملکیت میں ہے ۔ وہ اس وقت دنیا میں سب سے طاقتور گروپ کے طور پر موجود ہیں۔ مسلمان اس حالت میں مغربی دنیا کی چالوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جب تک عقل اور علم سے کام نہیں لیں گے کرۂ ارض پر مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔ القاعدہ اور طالبان چونکہ محض جوش سے کام لے رہے ہیں اور عقل کو قریب پھٹکنے نہیں دیتے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں۔ نہ ان کو مذاکرات سے کچھ مل سکتا ہے اور نہ ہی افغانستان سے افواج کی واپسی کے بعد طالبان اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کاعلاج اور ان کا مقدر وہی ہے جو ہماری ابتدائی تاریخ میں خوارج کے انجام کے طور پر درج ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب خوارج کو سمجھانے بجھانے اور انہیں راہ راست پر لانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو امیر المومنین حضرت علیؓ نے اُن سے جنگ کی اور اُن کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔ ہمارے ملک کے اندر ان لوگوں کی جو حمایت موجود ہے وہ حقیقت میں ان لوگوں کی حمایت نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی دنیا میں سر اٹھا کر جینے کی جائز خواہش سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ اور یہ ناجائز فائدہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جو عقل سے محروم ہیں۔ دنیا بھر کے ڈیڑھ سو کروڑ مسلمانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچایا جا رہا ہے۔ مسلمان ملکوں کی حکومتوں کو بے بس کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ کسی قسم کی مرکزیت قائم کرنے کی مسلمانوں کو اجازت نہیں دی جاتی۔ کس کس کو کس کس سے لڑایا جا رہا ہے۔ دنیا کا پانچواں حصہ ہونے کے باوجود ہماری حالت یہ ہے کہ ع نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اس صورتحال پر غور کریں اور پھر دیکھیں کہ القاعدہ اور طالبان جو کر رہے ہیں ان سے ہمارے مسائل کم ہو رہے ہیں یا اور بھی بڑھ رہے ہیں؟ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم لوگ معاشی طور پر مضبوط ہوں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو پیچھے رہ گئے ہیں اس کمی کو پورا کریں۔ خاموشی اور ثابت قدمی سے جس طرح چین نے ترقی کی ہے اسی طریقے سے ہمیں بھی اپنے ہاں جس جس شعبے میں جو جو کرنا ضروری ہے وہ کرنا چاہیے۔ مغرب نے جس طرح چین کی مسلسل مزاحمت کی ہے وہ ہماری بھی مزاحمت کرے گا لیکن اگر عقل سے کام لیا جائے تو اس مزاحمت کے باوجود بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر ایسا ہوا کہ مسلم دنیا القاعدہ اور طالبان جیسے لوگوں کی مدد سے ہی مغرب کا مقابلہ کرتی رہی تو پھر انجام بتانے کی بھلا کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟