"ARC" (space) message & send to 7575

مذاکرات کا انجام

دو قبیلوں میں برسوں سے دشمنی چل رہی تھی۔ علاقے کے لوگ جن کا تعلق دونوں قبیلوں سے تھاامن کے لیے ترس گئے تھے۔ آخر ایک قبیلے کے سردار نے پہل کی۔ اس نے علاقے کی مذہبی شخصیت کو اپنے ہاں مدعوکیا۔ اس مذہبی شخصیت کو دونوں قبیلے ہی اپنا پیرو مرشد مانتے تھے ، لہٰذا موصوف کو دونوں قبیلوں کے زیر اثر علاقوں میں جانے کی سہولت حاصل تھی۔ جس سردار نے پیر صاحب کو بلوایا تھا اس نے پیر صاحب سے کہا کہ دونوں قبیلوں کی دشمبی ختم کرانے کے لیے اگر وہ مدد کرنے پر تیار ہوں تو ان کے پاس ایک تجویز ہے۔ پیر صاحب نے پوچھا کیا تجویز ہے؟سردار نے کہا کہ آپ میرے بیٹے کا رشتہ لے کر جائیں اور میرے دشمن سردار کی بیٹی سے اس کا رشتہ طے کروا کے اس دشمنی کو ختم کر دیں۔
پیر صاحب بہت خوش ہوئے ، فوراً تیار ہو گئے۔ کہنے لگے ،کام بہت مشکل ہے لیکن میں سر توڑ کوشش کروں گا کہ تمہارے دشمن سردار کو منا لوں۔سردار نے پیر صاحب کو تحفے تحائف دے کر روانہ کر دیا۔ مہینوں گزر گئے مگر پیر صاحب کی طرف سے کوئی خبر نہ آئی ۔ آہستہ آہستہ محسوس ہونے لگا کہ پیر صاحب کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن سردار کو معلوم تھا کہ ایسے کاموں میں وقت زیادہ صرف ہو جانا تعجب کی بات نہیں ہوتی ، لہٰذا اس کی امید قائم رہی اور آخرکار ایک روز پیر صاحب واپس تشریف لے آئے۔ دونوں کی گفتگو شروع ہوئی تو پیر صاحب گویا ہوئے کہ تمہارا دشمن سردار تو مانتا ہی نہیں تھا لیکن میں بھی زور لگاتا رہا۔ روزاس کو سمجھاتا رہا مگر وہ بات سمجھ کے ہی نہیں دیتا تھا۔سردار سے صبر نہ ہوا، اس نے براہ راست پوچھا: پیر صاحب بتائیں آخر وہ مانا یا نہیں مانا۔ پیر صاحب جواب میں سر کھجاتے ہوئے بولے ، بیٹی کا رشتہ دینے پر مان تو گیا ہے مگر تمہارے بیٹے کو رشتہ دینے پر راضی نہیں ہوا ، مجھ کو بیٹی کا رشتہ دینے پر راضی ہو گیا ہے۔
اس لطیفہ نما واقعے کو درج کرنے کا میرا مقصد تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ جہاں بات چیت براہ راست فریقین کے بجائے درمیان کے ایسے لوگوں کے ذریعے ہو جن کا واحد وصف یہ ہو کہ وہ دونوں فریقوں کے درمیان آ جا سکتے ہوں، تو بات چیت کا انجام اکثر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اس لطیفے میں مذکور ہے ، یعنی فریقین بات چیت کے نتائج پرہکا بکا رہ جاتے ہیں۔
اب یہ تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے درمیان جو مذاکرات کا ''آغاز‘‘ ہوا ہے ، اس میں آپ غور کریں تو فریقین غائب ہیں اور جو کمیٹیاں نامزد ہیں ان کے افراد اپنی اپنی سوچ کے پکے غلام ہیں۔ یہ تمام لوگ میڈیا پر بارہا آ چکے ہیں اور اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل بھی قوم کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ 
طالبان کی طرف سے کمیٹی کے رکن مولانا عبدالعزیز اُس سوچ کے حامل ہیں جن کی ترجمان القاعدہ کی تنظیم ہے۔ موصوف نے لال مسجد بحران کے زمانے میں نہ مولانا تقی عثمانی کی بات مانی اور نہ خانہ کعبہ کے امام کی اپیل کو درخور اعتنا سمجھا۔ فرض کریں کہ اگر طالبان شریعت کے نفاذ کے طریقہ کار سے متعلق کچھ لچک دکھانے پر تیار ہو جاتے ہیں توکیا مولانا عبدالعزیزاپنے آپ کو کمیٹی کا حصہ رہنے پر آمادہ کر پائیں گے؟ ہرگز نہیں۔
اسی طرح مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم اپنی اپنی پکی مذہبی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ دونوں بھی، اگر کہیںلچک دکھانے کی نوبت آئی تو اپنے آپ کو اپنی اپنی سوچ کا اسیر پائیں گے۔جب ہر کوئی اپنی اپنی الگ دکان بنا کر بیٹھا رہے گا تو مذاکرات بھلا کس کروٹ بیٹھیں گے۔ مذاکرات کے لیے تو بہت تحمل اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ضد پر اڑنے سے معاملات مزید بگڑتے ہیں۔ یہاں تو سلسلہ ہی الٹ چل نکلا ہے۔ مذاکرات دہشت گردی ختم کرنے کے لیے ہو رہے تھے لیکن اب اس کا رخ شریعت کے نفاذ کی جانب مڑ رہا ہے۔ کیا اس صورتحال میں مذاکرات کی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے؟ کیا اس طرح دہشت گردی ختم ہو پائے گی؟
دوسری طرف جو کمیٹی ہے وہ حکومت کی نامزد کردہ ہے۔ معروف کالم نگار اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی اس کمیٹی کے سربراہ ہیں ۔ رستم شاہ مہمند اگر کوئی موقف اپنا لیں تو کم از کم پاکستان میں تو کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو انہیں اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبورکر سکے۔ رستم شاہ مہمند کی طرح معروف صحافی رحیم اللہ یوسف زئی پاک افغان تعلقات پرایک اتھارٹی ہیں۔ ان کی رائے اگر کہیں متصادم ہو گئی تو وہ بھی چٹان کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے ۔ چوتھے رکن میجر ریٹائرڈ محمد عامر بھی آئی ایس آئی سے اپنے پرانے تعلق کے حوالے سے ان امور پر ایسی سوچ رکھتے ہیں جو اٹل ہے۔
یاد رہے کہ اس کمیٹی میں صرف عرفان صدیقی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان مذاکرات میں حکومت کے مفاد کی نگرانی کی کوشش کریں گے ؛ تاہم جوکچھ حکومت چاہے گی وہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم سے منوانا بہت زیادہ آسان دکھائی نہیں دیتا۔
لہٰذا جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات کی فہرست اور اس کے جواب میں حکومت کا موقف سامنے آئے گا۔ پھر کمیٹیوں کے ارکان میڈیا پر آ جائیں گے اور ان کی گفتگو کے ذریعے وہ باتیں قوم کے سامنے آئیں گی کہ آپ کو حیرت ہو گی کہ مذاکرات کے نام پر اس دہشت زدہ قوم کے ساتھ کیا گھنائونا مذاق کیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں