قرآن پاک میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں سے کہا ہے کہ وہ توبہ قبول کرنے والی ہستی بھی ہے اورغفورالرحیم بھی ہے۔ گویا بندہ زندگی کے کسی حصے میں بھی اگر سچے دل سے توبہ کر لے تو پروردگارعالم بخوشی اس کی نہ صرف توبہ قبول کر لیتا ہے بلکہ اس کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔ پیدا کرنے والے کی طرف سے انسانوں کو یہ سہولت ان کی تمام طبعی زندگی کے دوران حاصل رہتی ہے۔ مولا کریم نے اس سہولت کو ختم کرنے کا اختیار کسی کو نہیں دیا۔ وہ علیم بذات الصدور ہوتے ہوئے انسان کے دل کے بالکل اندر موجود جذبات و احساسات کے ساتھ اس کی خواہشات سے با خبر رہتا ہے اور انہی کی روشنی میں انسان کو ہدایت اور توبہ کی توفیق دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔
اس بیان کی روشنی میں دیکھیے کہ جب تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے رہنما انتہائی کم عمر بچوں اور بچیوں کے ذریعے خود کش حملے کرواکر بلا تفریق قتل عام کا ارتکاب کرتے ہیں تو وہ لازماً ایک بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ گناہ یہ ہے کہ پروردگار نے بندے کو طبعی زندگی کے خاتمے تک توبہ کی جو سہولت دے رکھی ہے، طالبان کی یہ کارروائیاں اللہ کے بعض بندوں کو اللہ کی دی ہوئی اس سہولت سے محروم کر دیتی ہیں۔ اب اس سلسلے میں اگر یہ دلیل دی جائے کہ حملے تو صرف فوج، پولیس وغیرہ پر کیے جاتے ہیں تو ہمارا دین اس دلیل کو قبول نہیں کر سکتا۔ اسلام میں تو اگر باقاعدہ کفار سے جنگ ہو رہی ہو تب بھی جو بے گناہ لوگ آپ سے نہ لڑ رہے ہوں ان کو قتل کرنا منع ہے۔ لہٰذا سکیورٹی اداروں پر حملوں کی آڑ میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کو ہلاک کر دینا دین دار مسلمانوں پر ظلم ہے اور گنہگار شہریوں کو اپنی اپنی طبعی زندگی تک اللہ کی طرف سے دی گئی توبہ کی مہلت کو ختم کرنے کے مترادف ہے، جو گناہ نہیں تو اور کیا ہے ، بلکہ گناہ در گناہ ہے۔ طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس ہزاروں کی تعداد میں نفری موجود ہے۔ یہ ذرا اپنے ان ساتھیوں کا ماضی کرید کر دیکھیں تو کثیر تعداد میں ایسے مل جائیں گے جو پہلے گناہ کی زندگی میں ڈوبے ہوئے تھے اور پھر توبہ کر کے اسلام کی طرف آئے۔ اللہ کو شاید ان لوگوں کا اور امتحان مقصود ہے۔ اگر ان کی توبہ سچی ہے تو پروردگار اس معاملے میں ان کی رہنمائی کر کے اعتدال کے راستے پر لے آئے گا اور انتہا پسندی سے بھی تائب ہو جائیں گے۔
مغربی دنیا کے ایک موثر جریدے نیوز ویک نے حال ہی میں طالبان کے ترجمان کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے جس میں سوالات ایسے کیے گئے کہ طالبان ترجمان کے جوابات بظاہر بہت مدلّل معلوم ہوتے ہیں حالانکہ اس انٹرویو میںجو سوالات طالبان کے لیے مشکل سوال ثابت ہوتے وہ کیے ہی نہیں گئے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نیوز ویک والوں کا پتا نہیں کیا مقصد ہو گا اور پھر ان کو دین اسلام کی اصل روح کا علم ہونا بھی محال معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ انٹرویو پاکستانیوں کے لیے تو بے وقعت ہی ثابت ہوا۔
ہم میں سے کسی کو اس بات کا جواب نہ مل سکا کہ خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے بلا امتیاز قتل عام کا ارتکاب کر کے کس طرح اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ جائز ہے؟ اور پھر شریعت بھی ایسی سخت گیر کہ بندے کو پروردگار نے اپنی طبعی عمر کے آخری حصے تک جو توبہ کی سہولت دی ہے اس کو مسترد کر کے بندوں کو انتقام کی آگ میں جلا دینا جائز سمجھا جاتا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جو کمیٹی نامزد کی ہے اس میں مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم جیسے معتدل مزاج لوگ شامل ہیں۔ ان کا پہلا فرض تو یہ بنتا ہے کہ طالبان کو دلائل کی مدد سے احساس دلائیں کہ خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے کسی بھی بے گناہ کی زندگی ختم کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور ان کو یہ بھی بتائیں کہ فوج اور پولیس وغیرہ پر حملے ان کو مہنگے پڑ سکتے ہیں کیونکہ اگر قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو پھر ملک کا نقصان تو ہو گا مگر تحریکِ طالبان پاکستان کے عزائم بھی خاک میں مل جائیں گے۔
طالبان کو سب سے زیادہ فائدہ اس تاثر کی وجہ سے ملتا ہے کہ پاکستانی قوم میں کافی تعداد میں ان کے حمائتی موجود ہیں۔ اگر اس تاثر کاتجزیہ کیا جائے تو یہ بے بنیاد ثابت ہو گا۔ ہمارے ہاں اکثریت سادہ لوح مزاج کے لوگوں کی ہے۔ ان کو ڈھیل دے دو تو بدعنوانی اور بے ایمانی میں ریکارڈ قائم کر دیتے ہیں جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے لیکن ان پر حکمرانی سخت کر دو تو چند دنوں میں ''بندے دے پتر‘‘ بن جاتے ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں ایوب خاں کا مارشل لاء دیکھا ہے۔ دنوں میں لوگ تیر کی طرح سیدھے ہو گئے تھے اور پھر جنرل مشرف کی حکومت کے پہلے دو سال تو سب کو یاد ہوں گے کہ کس طرح قوم سدھری تھی۔ بد قسمتی سے پھر مشرف سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس غلطی کی سزا اب تک بھگت رہے ہیں تو لوگ تو عام اصطلاح میں سیدھے سادے مسلمان ہیں یعنی اکثریت ایسی ہے۔ اب کناروں پر ایک اقلیت کٹر مذہبی رجحان رکھنے والوں کی ہے اور دوسری اقلیت نام نہاد سیکولر آزاد خیال لوگوں کی ہے۔
مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کٹر مذہبی رجحان رکھنے والی طاقتوں کو جن میں طالبان بھی شامل ہیں، شکست ہوتی ہے تو فتح کا جھنڈا نام نہاد سیکولر اور آزاد خیال لوگوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ یہ بات ملک کی اکثریت کو قبول نہیں۔ دوسری طرف اگر طالبان قسم کے لوگ حاوی آتے ہیں تو یہ بھی ملک کی اکثریت کو قبول نہیں۔
اصل میں یہ دونوں اقلیتیں یعنی طالبان قسم کے لوگ اور آزاد خیال سیکولر قسم کے لوگ پاکستانیوں کے لیے مسئلہ ہیں۔ یہ سارا جھگڑا ان دونوں اقلیتوں کا ہے اور ملک کی اکثریت ان کے ہاتھوں پریشان بیٹھی ہے۔ یہ دونوں اقلیتیں اس غلط فہمی میں ہیں کہ ملک کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
لہٰذا میری رائے میں ہمارے ملک کے مسائل نہ تو طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات سے حل ہوں گے اور نہ ہی طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے کوئی فائدہ ہو گا کیونکہ فوجی آپریشن سے طالبان کو تو آخر کار شکست ہو جائے گی مگر ملک کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی۔
اس مسئلے کا حل جو دکھائی دیتا ہے وہ یہی ہے کہ ان دونوں اقلیتوں یعنی طالبان قسم کے لوگوں اور آزاد خیال سیکولر عناصر کے خلاف ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ ہمارا ملک ان دونوں کی گرفت سے آزاد ہو جائے ، یہ کون کرے گا؟ یا تو کوئی سیاستدان ایسا ہو جس کی فوج دل سے عزت کرتی ہو اور یا پھر کوئی فوجی ایسا ہو جس کی سیاستدان دل سے عزت کرتے ہوں۔ مارشل لاء ہم آزما چکے ہیں اور سیاستدانوں کا طرز حکومت بھی دیکھ چکے ہیں۔ اب اگر ان دونوں کا کوئی حسین امتزاج ہو جائے تو ہمارا مسئلہ حل ہونا شروع ہو سکتا ہے۔