اس بات کا تعین اب تک نہیں ہو سکا کہ پاکستانی قوم کی حیثیت سے ہماری ثقافت کیا ہے۔یہ نہیں کہ اس سلسلے میں کوششیں نہیں ہوئیں۔کافی کوششیں ہو چکی ہیں جن میں سب سے نمایاں کوشش بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں پیپلزپارٹی کے رہنما فخر زمان نے کی تھی۔لیکن وہ بھی بارآور نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ ابھی بحیثیت قوم ہمارے اندر تضادات کی بھرمار ہے۔ انہی تضادات کی وجہ سے برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کا وہ ورثہ جو پاکستان میں موجود تھا‘کو ایسا لگتا ہے ہم نے مکمل طور پر ضائع کر دیا ہے۔
برصغیر کی ثقافت پر اگر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو یہاں کلاسیکی موسیقی کے میدان میں مسلمان گھرانے صدیوں سے چھائے نظر آئیں گے۔ تقسیم ہند کے بعد ان مسلمان گائیک گھرانوں کا ایک اہم حصہ پاکستان آیا۔ کچھ تو فوراً ہی دلبرداشتہ ہو کر بھارت چلے گئے جن میں نمایاں نام استاد بڑے غلام علی خان کا ہے اور کچھ خاندان جو یہاں رہ گئے‘ ان کے فن کی حفاظت کا چونکہ کوئی مناسب انتظام نہ تھا ،لہٰذا کلاسیکی موسیقی کا معیار آہستہ آہستہ گرنا شروع ہوا اور اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ اس میدان میں روشن آرا بیگم‘استاد نزاکت علی خان‘ استاد سلامت علی خان‘استاد امانت علی خاں‘ استاد فتح علی خاں‘استاد شریف خاں پونچھ والے سمیت جو درجنوں معرکہ آرا فنکار یہاں موجود تھے ان جیسا ایک بھی موجود نہیں ہے۔
کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت پذیرائی جو ہمارے ہاں ہوئی اس میں ریڈیو پاکستان اور حیات صاحب کی میوزک کانفرنس کا اہم کردار رہا اور بعدازاں اس فن کو پاکستان ٹیلی وژن نے بھی سہارا دیا مگر چونکہ ہماری قومی زندگی میں کسی نے اس فن کو پاکستانی ثقافت کا حصہ تسلیم کرنے ہی نہ دیا لہٰذا یہ فن معدوم ہوتا ہوا آج اس انجام کو پہنچا ہے۔
ستر کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کے میوزک سیکشن میں کبھی کبھی کلاسیکی موسیقی کی عدم پذیرائی پر بحث ہوتی تو بعض لوگوں کی طرف یہ نکتہ اٹھایا جاتا کہ ماضی میں کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ نے اپنے فن کو راجوں مہاراجوں کے درباروں تک محدود کر لیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اس فن سے دور ہوتے گئے اور انہوں نے میلوں کی موسیقی‘نوٹنکیوں کی موسیقی اور بعد میں تھیٹر اور پھر فلم کی موسیقی کو چونکہ اپنی پہنچ میں پایا لہٰذا عام لوگ یہی موسیقی اپناتے گئے اور صرف چیدہ چیدہ لوگ رہ گئے جو کلاسیکی موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات کس حد تک درست ہے کیونکہ ہمارے ہاں ایسی باتوں کو سائنسی انداز میں جانچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں پر یہ الزام تو عائد نہیں ہو سکتا کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے تھے۔اس دور میں یہ تو ایک طرز زندگی تھا جس میں وہ رہ رہے تھے بالکل اسی طرح جیسے ان کے لیے یہ بھی زندگی کا ایک طریقہ تھا کہ وہ کلاسیکی موسیقی کا یہ فن اپنی اولاد کو بچپن ہی سے سکھانا شروع کر دیتے تھے۔
بعض لوگ اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ اپنا فن صرف اپنے اپنے گھرانے تک محدود رکھتے تھے۔ یہ اعتراض بھی اتنا زور دار معلوم نہیں ہوتا۔ صدیوں تک ان لوگوں نے اسی طرح اس فن کو زندہ رکھا۔ بیٹے باپ سے سیکھتے رہے۔بھائی بھائی سے سیکھتے رہے ۔یہ سلسلہ چلتا رہا کیونکہ پذیرائی موجود تھی۔راجوں مہاراجوں کے درباروں کے ساتھ ان کا روزگار لگا ہوا تھا۔پاکستان میں بھی اگر ان اساتذہ کے روزگار کا سرکاری سطح پر کوئی انتظام ہو جاتا تو آج ممکن ہے نہ صرف کلاسیکی موسیقی کا فن یہاں پورے آب و تاب سے موجود ہوتا بلکہ عوام میں اس کی پذیرائی بھی ہو سکتی تھی۔
پاکستانی قوم کے طور پر شروع ہی سے ہم لبرل اور کنزرویٹو (Liberal and Conservative)کی بحث میں الجھے ہیں اور اب تک اس گتھی کو سلجھا نہیں پائے۔ اس وجہ سے بحیثیت قوم ہمیں بہت سے نقصانات ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ بھی اسی گتھی نہ سلجھانے کا نتیجہ ہے۔ ہماری ثقافت بھی اسی وجہ سے یتیم ہو چکی ہے۔
امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ یہ مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں مگر اس عمل میں کلاسیکی موسیقی کے ورثے کا لٹ جانا ہمیشہ ایک المیہ ہی رہے گا۔کاش ایسا ہوتا کہ جس طرح ہلکی پھلکی موسیقی کے ورثے کو ہماری فلمی صنعت نے سہارا دے دیا تھااور اس شعبے کے میوزک ڈائریکٹروں اور سنگرز کے روزگار فلمی گانوں اور فلمی موسیقی کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے‘ اسی طرح کلاسیکی موسیقی کے فن کاروں کی پذیرائی کی بھی کوئی سبیل پیدا ہو جاتی مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
آج کل تو ہماری فلمی صنعت تباہ حال ہے مگر میں ذکر کر رہا ہوں اس دور کا جب ہمارے ہاں بھی فلمی صنعت عروج پر تھی۔حالانکہ اس دور میں شروع شروع میں تو بھارتی فلمیں بھی یہاں آتی تھیں اور پھر 65ء کی جنگ کے بعد جب بھارتی فلموں کی نمائش مکمل طور پر بند ہو گئی تو پھر بھی ریڈیو نشریات اور کیسٹ وغیرہ کے ذریعے بھارتی فلمی موسیقی یہاں مسلسل پہنچ رہی تھی۔اس سب کے باوجود ہماری فلمی صنعت سے وابستہ فن کاروں کی ہلکی پھلکی موسیقی کے میدان میں کارکردگی قابل تحسین رہی اور یہ ورثہ اب بھی ہمارے فنکاروں کے کام آ رہا ہے۔
بھارت بڑا ملک ہے ۔موسیقی سے بحیثیت قوم ان کا لگائو بہت زیادہ ہے۔ وہا ں ہندو تو موسیقی کو اپنے دھرم کا حصہ سمجھتے ہیں لہٰذا وہاں بڑے بڑے موسیقار فلمی دنیا کی وساطت سے منظر عام پرآئے۔نوشاد‘ایس ڈی برمن‘انیل بسواس‘او پی نیر‘سلیل چودھری‘ شنکر جے کشن‘کھیم چند پرکاش‘لکشمی کانت پیارے لال‘سی رام چندر‘ مدن موہن‘ آرڈی برمن‘ خیام‘ سجاد‘ غلام محمد سمیت سینکڑوں موسیقار ہیں جن کی دلکش دھنیں آج بھی مقبول ہیں۔یہ لوگ ہمارے پاکستانی موسیقاروں کے مقابلے میںتھے۔اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جی اے چشتی‘ خواجہ خورشید انور‘ روبن گھوش‘نثار بزمی‘ ماسٹر عنایت حسین‘ صفدر حسین‘ سلیم اقبال‘ رشید عطرے‘حسن لطیف‘ اے حمید اور سہیل رعنا جیسے درجنوں پاکستانی موسیقاروں نے اپنے فن سے کیا بھر پور مقابلہ کیا تھا۔بھارتی فلمی موسیقاروں کی طرح پاکستانی فلمی موسیقاروں نے بھی فن کی بلندیوں کو چھوا بلکہ بعض پاکستانی میوزک ڈائریکٹر تو منفرد خراج تحسین بھی پاتے رہے۔مجھے نورجہاں کا ایک انٹرویو یاد ہے جس میں انہوں نے خورشید انور کے فن کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا موسیقار انہوں نے دوسرا کوئی ''نہ اِدھر دیکھا ہے اور نہ اُدھر‘‘۔ ظاہر ہے ان کی مراد اِدھر سے پاکستان تھی اور اُدھر سے بھارت تھی۔یاد رہے کہ نورجہاں کم ہی کسی کی تعریف کرتی تھیں اور جس قدر ان کی بطور سنگر موسیقی کی سمجھ تھی‘ وہ میری نظر میںآج تک کسی اور سنگر کے حصے میں نہیں آئی ۔
ہمارے پاکستانی موسیقاراس وجہ سے مقبول ہو رہے تھے کہ فلمی صنعت ان کو سہارا دے رہی تھی۔ کلاسیکی موسیقی کا ورثہ تو ہم کھو چکے ہیں اور اب فلمی موسیقی میں جو ہمارا مقام تھا وہ بھی ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ طالبان جس ثقافت کے داعی ہیں اس سمت میں ہم بحیثیت قوم بڑھتے نظر نہیں آ رہے ۔ہمارا نجی الیکٹرانک میڈیا تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس میڈیا کے کرتا دھرتا لوگوں کو ہی اس فن میں کچھ کرناچاہیے کہ حکومت سے اس بارے میں کوئی امید وابستہ کرنا بے سود ہی ثابت ہو گا۔