"ARC" (space) message & send to 7575

ٹکرائو نہیں مکالمہ

کل کائنات کے لیے علم و حکمت اور دانائی کا سب سے بڑا سر چشمہ قرآن پاک میں محفوظ اللہ کا کلام ہے۔ ہمارے نبی پاکﷺ کو مدینے میں جو چیلنجز درپیش رہے اُن میں یہود اور منافقین کی طرف سے پیش کردہ خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پروردگار نے وحی کے ذریعے جو رہنمائی کی وہ ایک روشن حقیقت کے طور پر کلام الہٰی میں موجود ہے۔ آج کے پاکستان کو در پیش مشکلات کے حوالے سے اگر اس رہنمائی سے ہم فائدہ اٹھانا چاہیں تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہمارے ملک کو کس طرف سے ویسے چیلنجز اور خطرات درپیش ہیں جس طرح کے چیلنجز حضورﷺ کے زمانے میں ریاست مدینہ کو یہود اور منافقین کی طرف سے درپیش تھے۔ 
اس وقت جو صورتحال سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہود تو پس منظر میں رہ کر مشکلات پیدا کر رہے ہیں جبکہ بھارت میں ہندوتوا کا ایجنڈا لے کر چلنے والے منافقین مسلسل پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے باہمی محبت اور یکجہتی وغیرہ کے بیانات کی حیثیت بالکل ویسی ہی ہے جیسے حضورﷺ کے زمانے میں یہودی مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ ہم بھی ایمان لائے ہیں لیکن جب اپنے شیاطین دوستوں میں واپس جاتے تھے تو اُن کو کہتے تھے کہ اصل میں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ تو ہم مذاق کر رہے ہیں۔ آج کل ہم بظاہر بھارت کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا طرز عمل ہمارے ہاں وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں ایک فریق بھارتی منافقت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس بات کی شدید خواہش رکھتا ہے کہ پاکستان اور بھارت اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں۔ اس فریق کو یہ احساس نہیں رہتا کہ پاکستان کے ضمن میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان کے موقف کے حوالے سے گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ اُن سے فی زمانہ خیر کی توقع کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے حضورﷺ کے زمانے میں یہود اور منافقین سے خیر کی توقع کرنا۔ 
دوسرا فریق ہمارے ہاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس فریق کی سوچ اگرچہ سادہ ہے مگر وہ ماضی کے تلخ تجربات کی آئینہ دار ہے اور اُس حکمت کی پیروی کرتی دکھائی دیتی ہے جس حکمت کے تحت قرون اولیٰ میں یہود اور منافقین کی مسلسل سازشوں سے مسلمانوں کو بچا کر رکھا گیا تھا۔ اس فریق کی یہی سوچ ہے جو غیر آئینی فوجی حکومتوں کے دور میں ان کی حفاظت کرتی ہے۔ پاکستانی عوام فوجی حکومتوں کے دور میں قدرتی طور پر اس ضمن میں بے فکر رہتے ہیں کہ ازلی دشمن بھارت کو پاکستان کے خلاف شیطانی ایجنڈا آگے بڑھانے کا کوئی موقع مل پائے گا وگرنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے ہاں فوجی حکومت کا ریکارڈ کبھی بھی قابل فخر نہیں رہا۔ 
سیاسی حکومتوں کا ریکارڈ بھی سب کے سامنے ہے۔ لہٰذا بڑی ذمہ داری سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اچھی حکومت کرنے کا مظاہرہ نہ فوجیوں نے کیا ہے اور نہ سیاسی لوگوں نے کیا ہے۔ 
تو بات ہو رہی تھی ان دونوں فریقوں کی سوچ میں ٹکرائو کی۔ یہ ٹکرائو ماضی میں بھی مصیبتیں کھڑی کرتا رہا اور آج کل بھی اس ٹکرائوکے اشارے مل رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فریقین میں ٹکرائو کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غلطی دونوں طرف ہے۔ ایک میں کم ہو سکتی ہے اور ایک میں زیادہ لیکن بہرحال ٹکرائو کے ذمے دار دونوں فریق ہوتے ہیں۔ ٹکرائو کے اس ماحول میں ہمارے بعض دانش ور یہ بحث لے کر سامنے آئے ہیں کہ قومی مفاد اگر سچ سے ٹکرا جائے تو کسے فوقیت ملے گی۔ سچ کو یا قومی مفاد کو۔ بظاہر تو ذہن سچ کی طرف جاتا ہے لیکن اگر اس بحث کا بغور مطالعہ کیا جائے گا تو معلوم ہو گا کہ 
بحث محض ایک پراپیگنڈہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ سچ کا کوئی مفہوم متعین ہے اور نہ ہی قومی مفاد کا۔ ایک فریق کا سچ دوسرے فریق کے لیے سفید جھوٹ ٹھہرتا ہے۔ واضح مثال کے طور پر کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی خبر پاکستان میںدیکھ لیں اور پھر وہی خبر بھارتی میڈیا میں دیکھ لیں ۔واقعہ ایک ہی ہو گا ہمارا میڈیا بھارت کو گناہ گار ٹھہرائے گا بھارت کا میڈیا پاکستان کو ۔ جہاں تک قومی مفاد کا تعلق ہے تو یہ مستقبل میں طے ہوتا ہے کہ ماضی میں کون سا قدم قومی مفاد میں ثابت ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں انہوں نے قومی مفاد میں سوویت یونین کی پیش قدمی روکنے کے لیے جہاد میں پاکستان کو جھونک دیا۔ اس وقت تو اس اقدامات پر داد کے ڈونگرے برسائے گئے مگر آج ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ قدم قومی مفاد میں نہیں تھا اور اس کے اثرات نے آج تک پاکستان کو غیر مستحکم کیا ہوا ہے۔ 
لہٰذا سچ اور قومی مفاد کی بحث بالکل فضول بحث ہے۔ اسی طرح ٹکرائو کے اس ماحول میں سیاستدانوں پر مشتمل فریق جس میں حکومت وقت بھی شامل ہے، بھارت کی ہندو نواز اسٹیبلشمنٹ کے واضح عزائم سے مسلسل صرفِ نظر کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور پاکستان کے عوام کو یہ تاثر دینے پر تلی ہوئی ہے کہ بھارت سے دوستی میں فلاح ہے۔ اپنے اس موقف کے حق میں اس فریق نے میڈیا کے ایک حصے کو اپنا ہمنوا بنا کر مشن پر لگایا ہوا ہے کہ اس کا موقف بار آور ہو۔دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ جس کی بھارت کے اصل عزائم کی آگہی مجموعی پر عوامی شعور کی آئینہ دار تو ہے مگر اس فریق کی حمایت میں جو گروپ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ان سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ گروپ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے سے ایسا کرتے ہیں یا خود ہی باہر آ جاتے ہیں مگر پراپیگنڈہ کے اصولوں کے پیشِ نظر ان گروپوں کے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے جلوس اور ریلیاں وغیرہ نکالنے سے سیاستدان جس فریق کی نمائندگی کرتے ہیں اس فریق کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔ 
عقل کا تقاضا یہی ہے کہ بھارت سے کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور اس ہمسائے کے ساتھ نہ دوستی نہ دشمنی کی پالیسی اس وقت تک جاری رہے، جب تک پاکستان معاشی طور پر ایک علاقائی طاقت نہیں بن جاتا۔ ٹکرائو کے اس ماحول کا واحد علاج مکالمہ ہے۔ اپنی اپنی انا کو تج کر فریقین کو ایک قومی نقطہ نظر پر متفق ہو جانا چاہیے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے وگرنہ سیاستدانوں کو فوج پر د بائو ڈال کرکوئی فائدہ نہ ہو گا اور نہ ہی فوج اگر اقتدار بھی حاصل کر لے تو پاکستان کو آگے لے جانے میں کامیاب ہو گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں