برسوں پہلے میں نے ایک انگریزی فلم دیکھی تھی جس کا نام تھا Barbarella۔ یہ بچوں کے لیے بنائی گئی فلم تھی۔ اس فلم میں ایک کردار فرشتے کا ہوتا ہے جس کے پَر فلم کا ولن ایک منظر میں جلا دیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب فرشتے کے پَر ٹھیک ہو جاتے ہیں تو ایک منظر میں وہ مصیبت میں پھنسے اُسی ولن کی جان بچاتا ہے جس نے اُس کے پَر جلائے ہوتے ہیں۔ فلم کی ہیروئن باربریلہ فرشتے سے کہتی ہے کہ اسی شخص نے تمہارے پَر جلائے تھے اور تم نے اسی کی جان بچائی جس کے جواب میں فرشتہ کہتا ہے ''Angels have no memory‘‘ یعنی فرشتوں کی کوئی یادداشت یا حافظہ نہیں ہوتا۔ گویا انسانوں میں دشمنیاں حافظے ہی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
لوگ اور قومیں بھی اسی حافظے کی وجہ سے ایک دوسرے کو معاف کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوتیں۔ اور یہ حافظہ بھی عجب شے ہے۔ کسی کا حافظہ کتنا بھی اچھا ہو اس کو اپنے کیے گئے مظالم تو یاد نہیں رہتے لیکن کسی نے اگر برسوں پہلے ایک مرتبہ میلی نظر سے دیکھا ہو وہ بھولتا نہیں۔ یہی حال اقوام کا ہے۔ قوموں کو بھی اپنی زیادتیاں بھول جاتی ہیں لیکن دوسری قوم کی طرف سے کی گئی تھوڑی سی ناانصافی بھی یاد رہتی ہے۔
ہزار برس ہونے کو آئے ہیں جب کروسیڈز شروع ہوئے تھے۔ اس دور میں مسلمانوں کا مجموعی طور پر پلڑا بھاری رہا تھا کیونکہ عیسائی دنیا اس دور میں اتنی طاقتور نہیں تھی۔ صدیاں بیت چکی ہیں مگر کروسیڈز میں شکستوں کا غم آپ مغربی دنیا کے دل سے نہیں نکال سکتے۔ ان کے لیے مسلسل دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ کروسیڈزیعنی مسلمانوں سے بیت المقدس کا قبضہ چھیننے کے لیے کی جانے والی صلیبی جنگوں کا آغاز بھی عیسائی دنیا ہی نے کیا تھا۔
فرانس کے شہر Clermont میں 1095ء میں ایک بڑی چرچ کونسل کا انعقاد ہوا تھا ۔اس کونسل کا روح ورواں اس دور کا پوپ تھا جس کا تاریخ میں نام پوپ اربن ثانی (Pope Urbon II) درج ہے۔ وہاں ہزاروں لوگوں کے سامنے اس پوپ نے ایسی موثر تقریر کی کہ اس کے چند ماہ بعد ہی پہلی صلیبی فوج یروشلم کی طرف رواں دواں تھی۔ چار برس کی لڑائی کے بعد صلیبیوں نے یروشلم کا دفاع کرنے والے مسلمانوں اور یہودیوں کو شکست دے کر وہاں اس قدر خون بہایا کہ وہ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ ہم لوگوں کو آج یہ اس وجہ سے بھولا ہوا ہے کہ یہ واقعہ اس دور کے مسلمانوں کو یاد تھا اور انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں 1187ء میں یروشلم پر دوبارہ قبضہ کر کے صلیبیوں کو ایسی شکست دی کہ پورا یورپ دنگ رہ گیا تھا۔
اس کے بعد بھی صلیبی جنگیں جاری رہیں مگر مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا اور آخر کار تیرہویں صدی میں اس دور کی عیسائی دنیا نے یروشلم پر قبضے کا ارادہ ترک کردیا۔ تاہم حافظے میں یہ واقعات ہی تھے جو فلسطین میں یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کی مغربی دنیا کی حمایت کے پس منظر میں تھے۔ آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز میں مغرب کی طرف سے کروسیڈز کا نعرہ سنائی دیا تھا۔ تہذیبوں کے تصادم کا جو ذکر ہوتا ہے ،اس میں بھی اسلامی تہذیب کے مدمقابل عیسائی تہذیب کی مخاصمت واضح دکھائی دیتی ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے ہاں عیسائی دنیا سے مخاصمت اتنی پرانی نہیں ہے۔ بس نوآبادیاتی دور ہے اور جدید دور ہے۔ ان ادوار سے پہلے مسلمان حکومتیں چھائی ہوئی تھیں۔ ایک طرف سلطان ذی شان سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا تھے‘ ادھر ایران میں شاہ عباس اور برصغیر میں اکبراعظم۔ ایک طرح سے مسلمان ہی دنیا پر حکمران تھے۔ اب صورتحال یکسر مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان زیادہ تر ماضی میں گم رہنا پسند کرتے ہیں۔
یورپ پر بھی یہ دور گزرا ہے۔ تحریک احیائے علوم سے پہلے وہ بھی ماضی میں گم رہتے تھے۔ وہ ان ادوار کو اپنی Dark ages باور کرتے ہیں، انہی ادوار میں یورپ نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا۔ آج کل کے دور کو اگر ہم مسلمانوں کی Dark ages شمار کریں تو پھر القاعدہ نے جو مغرب کے خلاف دہشت گردی کا آغاز کیا ہے یہ بالکل ایسا ہی ردعمل معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صلیبی جنگوں کا آغاز کرنے والوں کا مسلمانوں کے خلاف تھا۔ ان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے چھڑانا ہے اور القاعدہ کا بھی بڑا مقصد قبلہ اول پر سے یہودیوں کا قبضہ ختم کروانا ہے جس کے لیے وہ یہودیوں اور ان کی حمایت کرنے والی مغربی دنیا پر حملہ آور ہے۔
القاعدہ اور جو مسلمان اس تنظیم کے مقاصد سے متفق ہیں ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح جذباتیت پر مبنی صلیبی جنگوں کی تحریک سے مغربی دنیا کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا ،اسی طرح مسلمانوں کو بھی اس طرح کے جذباتی طرز عمل سے فائدہ نہ ہوگا۔ یورپ نے صلیبی جنگوں کو ترک کر کے‘ علوم کا احیاء کر کے ترقی کی سیڑھی چڑھنا شروع کی تھی۔ آج مغرب دنیا میں ترقی کے میدان میں سب سے آگے ہے۔ جس طور مغرب نے ترقی کی ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی جذباتیت پر مبنی القاعدہ کے اس ایجنڈے کو ترک کر کے علم و ہنر کی دنیا میں آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن اگر ہم ضد کرتے رہے کہ اسی طرح جذباتی طریقے سے مغربی دنیا کو نیچا دکھانا ہے تو انجام وہی ہوگا جو عیسائیوں کے لیے صلیبی جنگوں کا ہوا تھا۔ جس طرح مغربی دنیا نے اپنے حافظے سے صلیبی جنگوں کو بھلایا نہیں مگر سہارا علم و ہنر کا لیا ہے اسی طرح مسلمان بھی مغربی دنیا کی زیادتیوں کو یاد ضرور رکھیں مگر سہارا انتقام کا نہ لیں بلکہ علم و ہنر کا لیں۔ ہمارے مسلمانوں میں شامل جو لوگ القاعدہ کے مشن پر نکل چکے ہیں اور پتہ نہیں فاٹا کے علاوہ کہاں کہاں پھیل چکے ہیں ،ان کی واپسی تو محال ہے مگر جو عام مسلمان‘ مغرب کو اپنے سے بہت آگے دیکھ کر دل میں کڑھتے ہیں اور کوئی رستہ ڈھونڈتے ہیں کہ وہ بھی دنیا میں سب سے آگے نکل جائیں ،ان کو اس نکتے پر ضرور غور کرنا چاہیے اور جذباتیت میں بہہ جانے کے بجائے جی جان سے علم و ہنر کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے فی زمانہ یہی صحیح سمت ہے اور صحیح سمت میں سفر ہی منزل تک پہنچاتا ہے بھلے آپ کی رفتار تیز نہ ہو۔