"ARC" (space) message & send to 7575

یہ مٹھی بھر لوگ

غلطی سے سو روپے کے نوٹ کو بیس روپے کا نوٹ سمجھ کر اگر آپ کسی فقیر کو دے بیٹھیں تو بھلے وہ فقیر اپاہج ہی ہو ،اس سے آپ سو روپے کا نوٹ واپس نہیں لے سکیں گے۔ پہلے تو آپ کو اپنی عزت کا خیال آئے گا کہ یہ فقیر کیا سوچے گا کہ بھیک دے کر واپس مانگ رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی تہیہ کرلے کہ نوٹ واپس لے کر رہنا ہے تو فقیر کی طرف سے جو لجاجت بھری مزاحمت ہوگی اس کا مقابلہ کرنا بھی کافی مشکل ہوگا۔ پھر بھی ڈھٹائی سے کوئی فقیر سے اپنا سو کا نوٹ لے ہی لے تو فقیر تو بدمزہ ہوگا ہی ،نوٹ واپس لینے والے کا موڈ بھی خراب ہی رہے گا اور سوچنے پر مجبور ہوگا کہ واپس نہ ہی لیتا توبہتر تھا۔
یہ معاملہ ہوا انتہائی معمولی رقم کا جو ایک بالکل معمولی سے شخص سے آپ نے حاصل کرنا تھی اور جس کو حاصل کرنے میں آپ ہر طرح حق بجانب بھی تھے لیکن بدمزگی کتنی ہوئی۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ حکومت جو دو سو ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے واپس لانے کی بات کرتی ہے اس میں کس قدر بدمزگی کا احتمال ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ رقم پاکستانیوں نے غیر قانونی طریقے سے حاصل کرکے اور غیر قانونی طریقے ہی سے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں رکھی ہوئی ہے۔ مجھے معاف فرمائیں میں نے فرض کرلیا ہے کہ حکومت واقعی سنجیدگی سے یہ دولت واپس لانا چاہتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حکومت پاکستان کے پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے گزشتہ ماہ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران بتایا تھا کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت اور پاکستان کی حکومت کے مابین ٹیکسوں کے ضمن میں پہلے سے جو معاہدہ موجود ہے ،اس پر دوبارہ بات چیت کا آغاز کرنے کی غرض سے وفاقی کابینہ ایک سمری کی منظوری دے چکی ہے۔ موصوف نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ سوئٹزرلینڈ میں بھی ایک قانون منظور ہوا ہے جس کی رو سے وہاں کی حکومت کسی بھی ملک سے یہ معاہدہ کرسکتی ہے کہ اگر اس ملک کے لوگوں کا سوئس بینکوں میں غیر قانونی پیسہ موجود ہوا تو اس کی نہ صرف اس ملک کو اطلاع دی جاسکے گی بلکہ اس دولت کی واپسی کی راہ بھی سوئس حکومت ہموار کرے گی۔
یہ باتیں کتنی حوصلہ افزاء معلوم ہوتی ہیں۔ بدعنوان لوگوں کے دو سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں قانون منظور ہوچکا ہے کہ جس ملک کے لوگوں کی ایسی دولت وہاں موجود ہو، اس ملک کی حکومت سے معاہدہ کرکے ایسے ڈالروں کی واپسی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اور پھر ساتھ ہی ہماری وفاقی کابینہ ایک سمری منظور کرچکی ہے جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کے ساتھ ایسے معاہدے کے لیے بات چیت کرے۔ یعنی سوچ کر ہی دل باغ باغ ہوجاتا ہے کہ دو سو ارب ڈالر واپس لانے کی سبیل پیدا ہورہی ہے۔لیکن یہ سب سوچ ہی ہے۔ حقیقت کیا ہے وہ تو سب کو معلوم
ہے۔ جن لوگوں کی یہ رقوم ہیں وہ کوئی راہ چلتے فقیر نہیں ہیں۔وہ ایسے لوگ ہیں جن کا نام سن کر بڑے بڑے ڈاکو اور بھتہ خور بھی کانپنے لگتے ہیں۔ پھر جو لوگ رقم واپس لانے کا کہہ رہے ہیں ان کی ساکھ کیسی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ حکومتِ وقت کے اپنے بندے ہی ان بدعنوانوں میں شامل ہوں جن کے اربوں ڈالر سوئس بینکوں میں ہیں۔ میرے ایک دوست جو جذباتی طبیعت کے ہیں،یہ سب کتھا جو میں نے اوپر بیان کی ہے ،اس کو سن کر کہنے لگے آخر پاکستان میں سے کسی کو تو آگے بڑھنا چاہیے اور جن لوگوں کی یہ دولت سوئس بینکوں میں موجود ہے ان مٹھی بھر لوگوں سے کیا ڈرنا؟میں نے اپنے دوست کو فوراً ٹوکا۔ میں نے کہا پہلے مٹھی بھر لوگوں کی جو اصطلاح تم نے استعمال کی ہے اس کا احوال سن لو۔ جنرل مشرف بڑے طاقتور صدر تھے ۔ صدر بھی تھے اور چیف آف آرمی سٹاف بھی۔ ایک پریس کانفرنس میں ایک رپورٹر نے صدر مشرف سے سوال کیا کہ آخر آپ کالاباغ ڈیم کیوں نہیں بناتے۔ آپ کو مخالفت کرنے والے ان مٹھی بھر لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ صدر مشرف سوال سن کر خاموش ہوگئے اور ایسی معنی خیز نظروں سے اس رپورٹر کو دیکھا کہ مجھے آج تک ان کا مضطرب چہرہ یاد ہے۔ بولے آپ جن لوگوں کو مٹھی بھر کہہ رہے ہیں آپ کو اندازہ نہیں وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔مٹھی بھر لوگوں کی اصطلاح کے ضمن میں میری اس انتہائی موثر مثال کے بعد میرے دوست بالکل خاموش ہوگئے گویا پوری طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ جن لوگوں کی دولت واپس لانے کا ذکر ہورہا ہے ان کے اثرورسوخ کی سطح کس قدر بلند ہے۔
اسی طرح آج کل لاہور ہائیکورٹ میں بیرسٹر اقبال جعفری کی ایک رٹ زیر سماعت ہے۔ عدالت عالیہ نے 63 اہم افراد کے نام نہ صرف نوٹسز جاری کیے ہیں بلکہ اخبارمیں اشتہار کی شکل میں شائع کردیئے ہیں جن کے بارے میں درخواست میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے ملکی دولت غیر ممالک میں رکھی ہوئی ہے جس کو واپس لایا جائے۔ ان اہم افراد میں وزیراعظم پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین نے اتوار کو حکومت کا پیش کردہ بجٹ مسترد کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت اس کیس کی بھی تعریف کی اور عدالت سے درخواست کی کہ اس سلسلے میں جلد پیش رفت کرے۔ خان صاحب کو یہ تو معلوم ہے کہ ان 63افراد میں ان کا نام بھی شامل ہے مگر غالباً یہ معلوم نہیں کہ بیرسٹر اقبال جعفر کی طرف سے دائر یہ درخواست اصل میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائٹس بنام عمران خان اور 62دیگر افرادہے۔ ان باسٹھ افراد میں عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما کا نام بھی شامل ہے۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم عہدیداروں کے علاوہ شریف الدین پیرزادہ ، اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر جیسے وکلا کے نام بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جیسی ہمہ جہت شخصیت کا نام بھی شامل ہے۔ شیخ رشید اور رحمن ملک جیسی ہستیوں کے نام بھی فہرست میں درج ہیں۔
بھلے اس فہرست میں وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر پرویز مشرف کے نام موجود ہیں مگر ہیں تو کل63لوگ ہی۔ آخر مٹھی بھر لوگ ہی ہوئے ناں۔حکومت مٹھی بھر لوگوں کے دو سو ارب ڈالر سوئس بینکوں سے واپس لانے کا کہہ رہی ہے۔لاہور ہائیکورٹ 63سرکردہ افراد سے جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں مٹھی بھر ہی بنتے ہیں، جواب مانگ رہی ہے کہ تم لوگوں کے بارے میں جو کہا جارہا ہے کہ ملک سے دولت لوٹ کر بیرون ملک لے گئے ہو اس کی حقیقت بتائو۔
اب دیکھیں حکومت اور عدلیہ کی جیت ہوتی ہے یا مٹھی بھر لوگوں کی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں