"ARC" (space) message & send to 7575

استاد تان توڑ اور استاد تان جوڑ

بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور کی معروف بھارتی فلم بیجوباورا میں دو کردار استاد تان توڑ اور استاد تان جوڑ مجھے آج کل اس وقت یاد آتے ہیں جب میں شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد کو تحریک انصاف کے چیئرمین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ 
فلم بیجوباورا میں بیجو ایک تصوراتی کردار ہے۔ تصوراتی ان معنوں میں کہ تاریخ میں اس کا کہیں سراغ موجود نہیں ہے مگر فلم میں دکھایا گیا ہے کہ وہ اکبراعظم کے نورتن‘ تان سین سے موسیقی کے میدان میں مقابلہ کرتا ہے اور اکبر کے دربار میں دیپک راگ گا کر پتھر کو پگھلا دیتا ہے اور تان سین کو شکست دے دیتا ہے۔ فلم کے مطابق بیجو‘ جس کو باورا کہا گیا ہے اپنے گورو سے حاصل کردہ گیان کی مدد سے بے مثال گائیک بن جاتا ہے۔ 
فلم کے مطابق تان سین نے اپنے زیر اثر علاقے میں اونچی آواز میں گانے پر پابندی لگا رکھی تھی جس پر استاد تان توڑ اور تان جوڑ بہت نالاں رہتے تھے۔ فلم میں جس قدر بُرا ان دونوں استادوں کو گاتے دکھایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تان سین نے جو پابندی عائد کر رکھی تھی وہ غالباً استاد تان توڑ اور تان جوڑ جیسے لوگوں کی موسیقی سے کانوں کو محفوظ کرنے کے لیے عائد کی گئی تھی ۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ انتہائی گھٹیا انداز میں گانے والے یہ دونوں استاد‘ بیجو باورا کو زبردستی اپنا شاگرد کہنے لگتے ہیں۔ بیجو اپنی دھن میں مگن‘ محبت میں شکست خوردہ ہو کر اپنے اصلی گورو کی تعلیم اور 
نصیحتوں کے نتیجے میں بے مثال گائیک بن کر جب تان سین کو چیلنج کرتا ہے تو استاد تان توڑ اور تان جوڑ پورے شہر میں شور مچاتے ہیں ''آگیا ہمارا شاگرد‘‘۔ اس پس منظر میں اگر یہ تصور کر لیں کہ عمران خان‘ بیجو باورا کی طرح تان سین کو شکست دینے نکلا ہے یعنی نوازشریف کو چیلنج کرنے نکلا ہے تو اس کے زبردستی کے دو سیاسی استاد شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد ہی دکھائی دیتے ہیں۔ تان سین اور نوازشریف میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ دونوں میاں کہلاتے ہیں۔ اسی طرح بیجو باورا اور عمران خان کے کرداروں میں بھی کافی مماثلت موجود ہے۔ جس طرح بیجو باورا کے تصوراتی کردار کا اس دور کی کلاسیکی موسیقی کی دنیا سے براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن بعد میں پیدا ہو گیا، اسی طرح ہماری جو سیاست کی دنیا ہے اس سے عمران خان کا براہ راست تعلق ان کے کرکٹ اور شوکت خانم ہسپتال کے ادوار میں تو نہ تھا مگر بعد میں پیدا ہو گیا۔ پیار سے اردو میں ہم جس کو 'پگلا‘ کہتے ہیں ہندی میں اسی مفہوم میں 'باورا‘ استعمال ہوتا ہے۔ خاں صاحب جس طرح معصومانہ انداز میں سیاست کرتے ہیں اس رعایت سے پیار سے ان کو پگلا یا بانورا کہا جا سکتا ہے۔ 
آپ خود سوچیں کون سا سیاستدان ہے جو آٹھ دن قید میں گزارنے کا ذکر اس تفاخر سے کرتا ہو جس طرح خاں صاحب کرتے ہیں۔ مشرف دور میں جب خاں صاحب آٹھ روز قید میں رہے تو رہائی پر جو تصاویر اخبارات میں آئیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ برسوں کی قید تنہائی گزار کر فارغ ہوئے ہیں۔ 
اب خاں صاحب جیسے بیجو باورا‘ تان سین کو چیلنج کرنے نکلا تھا بالکل اسی طرح نوازشریف کو چیلنج کرنے نکلے ہیں تو جلسوں میں شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد جس انداز میں سٹیج پر بیٹھتے ہیں اور عمران خان کے ساتھ اساتذہ کے سے مشفق انداز میں پیش آ رہے ہوتے ہیں‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے آپ کو سیاست کے بہت بڑے کھلاڑی سمجھتے ہیں اور تاثر یہ ملتا ہے کہ 
دونوں یہ باور کر رہے ہیں کہ اس وقت نوازشریف کا کانٹا نکالنے کے لیے سیاست کے پاس بانورے کھلاڑی یعنی عمران خان کے سر پر ان کا دستِ شفقت رہنا چاہیے۔ خاں صاحب کو بانورا میں اس لیے کہتا ہوں کہ عام ناظرین تک کو ٹی وی سکرین کے ذریعے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ استاد تان توڑ اور استاد تان جوڑ کا دست شفقت جعلی ہے مگر خاں صاحب اس بات سے مکمل طور پر غافل آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنے ووٹروں کو اسی طرح اپنے آپ سے بدظن کرنے پر لگے ہوئے ہیں جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے حامیوں کو اسلام آباد لانگ مارچ کے نام پر کیا تھا۔ سخت سردی میں ان کے ہزاروں حامی اسلام آباد میں دھرنے پر رہے اور بعدازاں ہزاروں ہی کی تعداد میں سخت سردی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا مہینوں شکار رہے۔ عمران خان نے بھی سیالکوٹ میں سخت گرمی میں ہزاروں افراد کو گھنٹوں بٹھائے رکھا۔ آپ کا کیا خیال ہے سخت گرمی سے پیدا ہونے والے امراض سے کثیر تعداد میں لوگ متاثر نہ ہوئے ہوں گے۔ خاں صاحب البتہ رنگ برنگا لباس پہن کر اسی طرح خوش اور مطمئن تھے جس طرح قادری صاحب اپنے کنٹینر میں حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد تھے۔ 
یہاں ممکن ہے قارئین کو اعتراض ہو کہ میاں نوازشریف کی میاں تان سین سے مماثلت نہیں بنتی تو عرض یہ ہے کہ موسیقی کے میدان میں سروں کی جن باریکیوں کی مدد سے میاں تان سین تاریخ میں امر ہیں‘ اقتدار میں رہ کراور جلاوطنی میں بھی‘ کاروبارکے میدان میں جن باریکیوں پر عبور کا میاں نوازشریف نے مظاہرہ کیا ہے اس کو بھی مستقبل کا تاریخ دان بھول نہیں پائے گا۔ 
ہماری تقدیر دیکھیں کہ پہلے پانچ برس آصف زرداری کو بھگتا‘ جن کے دور حکومت کو ایک ٹی وی پروگرام میں سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے Marauding کہا جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہر دم لوٹ مار کی تلاش میں رہنا‘ اب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی ہے تو ہر طرف سے صدائیں آ رہی ہیں کہ فرنٹ مین رکھے ہوئے ہیں‘ فیصلہ سازی پر سوال اٹھ رہے ہیں‘ بجٹ کے اعدادو شمار کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ چار سو اسی بلین روپے آتے ہی گردشی قرضہ اتارنے کے لیے دے دیے۔ اس سے آدھی رقم سکیورٹی اداروں کو دی ہوتی تو طالبان کا خطرہ بہت حد تک کم ہو چکا ہوتا۔ اب یہ پارٹی پانچ سال حکومت کرنا چاہتی ہے۔ فرض کریں اگر نہیں کر پاتی تو آگے جمہوریت نے تحفے کے طور پر ہمارے لیے خاں صاحب کو رکھا ہوا ہے۔ جس قسم کے استاد تان توڑ اور استاد تان جوڑ خاں صاحب کے ساتھ جمع ہیں اور جس طرح کا ہجوم خاں صاحب نے اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے تو ا گر یہ لوگ برسراقتدار آ گئے تو آصف زرداری اور نوازشریف کو لوگ اس طرح یاد کیا کریں گے جس طرح ساٹھ اور ستر کے عشروں میں ہمارے ہاں کے بوڑھے لوگ‘ متحدہ ہندوستان میں انگریز کی حکومت کو یاد کیا کرتے تھے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں