اسرائیل نے غزہ پر جو قہر توڑا ہے اس کا مقصد اگر وہاں موجود حماس کے جانثاروں کے حوصلے پست کرنا تھا اور حوصلے پست کر کے ان کو اسرائیل پر راکٹ چھوڑنے سے روکنا تھا تو یہ مقصد پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ غزہ میں موجود فلسطینی لوگ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں‘رو دھو بھی رہے ہیں مگر خوف زدہ نہیں۔ اس تنازع میں خوف زدہ ہونے پر اجارہ داری اسرائیلی عوام کی ہے۔ حماس کے چھوڑے راکٹوں سے غالباً ایک بھی اسرائیلی اب تک ہلاک نہیں ہوا لیکن جتنی آبادی کی نیندیں وہاں یہودی بستیوں میں حرام ہیں اس کا اندازہ باہر کی دنیا کو نہیں ہو سکتا۔اسرائیل کے نام سے مغربی دنیا نے مشرق وسطیٰ میں C-sectionکے ذریعے خنجر کی شکل کا یہ چھوٹا سا ملک تخلیق تو اپنے ہی مقاصد کے لیے کیا تھا مگر یہودیوں کو یہ چکر دے کر کہ وہ اپنی موعودہ سرزمین Promised Landمیں جا رہے ہیں‘ ایک امتحان میں ڈال رکھا ہے ۔جن لوگوں نے اسرائیل کے قیام میں سرگرم کردار ادا کیا وہ لوگ Zionistہیں جن کو صہیونی کہا جاتا ہے۔یہ لوگ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی مزاج کے تھے اور آج بھی ہیں۔ جو صحیح العقیدہ یہودی ہیں وہ ان صہیونیوں کو اپنا نمائندہ نہیں مانتے‘ لیکن ایسے یہودیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ زیادہ تر تو ایسے ہیں جو سب کچھ چھوڑ کر اس ''موعودہ سرزمین‘‘ میں آ کر آباد تو ہو چکے ہیں مگر مسلسل ایک خوف کے ساتھ جیتے ہیں۔
اگرچہ مسلمانوں کی آج کل جو صورتحال ہے اس سے منطقی طور پر اسرائیلوں کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے لیکن اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک میں رہنے والے جب اپنے اردگرد مسلمان ملکوں کا ایک ہجوم دیکھتے ہیں تو پھر لمحے بھر کے لیے ان کو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ مغربی دنیا کس طرح اسرائیل کی حفاظت کر رہی ہے۔انہیں یہ بھی یاد نہیںرہتا کہ اسرائیل کے پاس کتنا تباہ کن اسلحہ ہے۔وہ یہ بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں کوئی موثر قدم ان کے ملک کے خلاف نہیں اٹھ سکتا۔جنرل اسمبلی اگر کوئی قرار داد پاس کر دے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرار داد منظور ہونے کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی‘ اسے پہلے ہی ویٹو کر دیا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی یاد نہیں رکھ پاتے کہ کتنی زیادہ بیرونی امداد انہیں امریکہ سے ملتی ہے۔گویا سب کچھ بھول جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان ملکوں میں گھرا ہوا دیکھ کر خوف میں ڈوب جاتے ہیں۔اس ذہنی کیفیت میں جب کبھی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ اسرائیل کے اندر آ کر کوئی چھوٹا موٹا راکٹ گر جائے تو وہی دیرینہ خوف اسرائیلی عوام کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیتا ہے۔حزب اللہ کے ساتھ جب اسرائیل کا معرکہ ہوا تھا تو اس وقت
بھی اسرائیل کی جنگی مشینری نے اپنی طاقت کا پر زور مظاہرہ کیا تھا مگر حزب اللہ کے راکٹوں نے اسرائیلی عوام کے دلوں میں خوف کو بیدار کر کے ایک طرح سے وہ لڑائی جیت لی تھی۔
مسلمان ہونے کے ناتے ہم یہ تو جانتے ہیں کہ یہودی اب ایک مغضوب قوم ہے کیونکہ ماضی میں کی گئی ان کی کرتوتوں کا قرآن پاک میں واضح ذکر موجود ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ میں بھی یہ ایک بکھری ہوئی قوم کے طور پر ہی زندہ رہی ہے اور ماضی میں مسلمان حکومتوں میں ہی یہودیوں کو تھوڑا بہت سکھ یا چین ملتا رہا ہے وگرنہ اس قوم سے نفرت تو ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔
جدید صہیونیت کو اسرائیل کی بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس تحریک کا آغاز کرنیوالی شخصیت کا نام تھیوڈور ہرزل Theadore Herzlتھا۔ موصوف ہنگری میں صحافی تھے اور ڈرامے وغیرہ لکھا کرتے تھے اور اپنے آپ کو دہریہ یعنی athiestکہتے تھے۔فرانسیسی فوج کے ایک یہودی کپتان پر جرمنی کے لئے جاسوسی کرنے کا مقدمہ چلا تو پیرس میں کچھ جلسے جلوسوں میں یہودیوں کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔اس پر موصوف اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ ایک الگ یہودی ملک کے لیے تحریک چلانے کا عزم کر لیا۔چونکہ مذہبی شخص نہیں تھے لہٰذا شروع شروع میں ان کے ذہن میں تھا کہ یہودیوں کا علیحدہ ملک یا جنوبی امریکہ میں ہو یا پھر فلسطین میں ہو۔1895ء میں تحریر کردہ ہرزل کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ غیر محسوس طریقوں سے مذکورہ دونوں مقامات میں سے جس میں بھی ممکن ہو غریب آبادی سے زمینیں خرید کر آہستہ آہستہ یہودیوں کو وہاں آباد کرنا شروع کیا جائے اور پھر جب تعداد کافی ہو جائے تو الگ وطن بنایا جائے۔
اب آپ خود سوچیں‘ جس مملکت کی شروعات اس طریقے سے ہوئی ہوں اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ موعودہ سرزمین ہے جس کا خداوند yahwehنے یہودیوں کے ساتھ ہزاروں سال پہلے وعدہ کیا تھا‘ کس قدر ناقابل یقین بات ہے۔ اسرائیل کے باسی جانتے ہیں کہ ان کے ملک کا قیام سیاسی سازش سے ہوا ہے۔یہودیوں کی جو اکثریت اسرائیل میں آباد ہے وہ اپنے ملک کے قیام کے اس پس منظر سے چونکہ پوری طرح واقف ہے اس لیے وطن کے لیے سرفروشی کا کوئی خاص جذبہ ان میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔مغرب کی سرپرستی میں دنیا بھر میں سازشیں اور جاسوسی کرنے میں البتہ اس ملک نے کافی نام پیدا کیا ہے۔
دوسری طرف فلسطینی غزہ کی جس پٹی پر رہتے ہیں اس کا پورا نام غزہ الہاشم ہے۔ہمارے نبی پاکؐ کا بنو ہاشم کے قبیلے سے تعلق تھااور اس قبیلے کے بانی ہاشم‘ غزہ کی پٹی میں دفن ہیں۔ عرب تاریخ کے مطابق وہ تجارت کی غرض سے غزہ کے علاقے سے گزر رہے تھے کہ وہیں وقت پورا ہو گیا۔حماس کے جانثاروں کو اپنے وطن کی حفاظت تو کرنا ہی ہے مگر ایسی ہستیوں کا مدفن یہ سرزمین ان کے جذبے میں اضافہ ہی کرتی ہے۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حماس کے لوگوں کو اس طرح کے خوف کا سامنا نہیں ہے جیسا خوف اسرائیلی عوام کو دن رات گھیرے رکھتا ہے۔یہ فلسطینی باایمان اور محب وطن ہونے کی وجہ سے اسرائیلی بمباری اور اذیت رساں زمینی کارروائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ ہلاکتیں اور زخمی ہونا ان کو دکھ پہنچاتا ہے مگر خوف پیدا نہیں کرتا۔عمارتیں ان کی کھنڈر بنتی ہیں مگر دل میں ان کا جذبہ دوچند ہوتا ہے۔جس کو ہم مسلم امہ کہتے ہیں اس کے منجمد طرز عمل کے باوجود جو باتیں میں نے بیان کی ہیں ان کی روشنی میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ آخر میں فتح کس کی ہونے جا رہی ہے۔