"ARC" (space) message & send to 7575

تیل‘مسلمان اور مغربی دنیا

امریکہ میں ایک کارٹون بہت مقبول ہوا ، جس میں بچہ باپ سے پوچھ رہا ہے: ڈیڈی !یہ ہمارا تیل مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے نیچے کیسے چلا گیا؟کارٹونسٹ بھی بعض اوقات ایسا گہرا طنز کرتے ہیں کہ طبیعت خوش ہو جاتی ہے ۔اس کارٹون میں امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ صنعتی مغربی ملکوں کی نفسیات اور سوچ بیان کی گئی ہے کہ تیل کی دولت ہے تو مغربی ملکوں کی، مگر قدرت کی غلطی سے یہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی زمین کے نیچے دفن ہو گئی۔مغربی دنیا سے ہم دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کا ذکر سن سن کر عاجز آچکے ہیں مگر مجال ہے کبھی کوئی یہ بات سرکاری سطح پر تسلیم کرلے جو بالواسطہ طور پر اوپر کارٹون کے پیرائے میںبیان ہوئی ہے۔امریکہ نے مشرق وسطیٰ اورایشیا کے ان حصوں کو،جہاں تیل اور گیس کی دولت زیر زمین موجود ہے، درجنوں فوجی اڈوں سے گھیر رکھا ہے مگر جنگ ہو رہی ہے دہشت گردی کے خلاف۔
11ستمبر 2001ء کے اندوہناک واقعے کے بعد القاعدہ کو دشمن ٹھہرا کر افغانستان کو خون میں نہلا دیا گیا۔ہمارے ملک نے بھی اس ''نیک کام‘‘ میں حیثیت کے مطابق حصہ لیا۔اس فوجی کارروائی کے بعد خیال تھا کہ اب امریکی، افغانستان کی تعمیر نو کا اپنا وعدہ پورا کریں گے مگر اچانک ایک انتہائی ناقابل اعتبار بہانہ بنا کر جلدی میں عراق پر حملہ کر دیا گیا۔اب گیارہ برس بعد کیا کسی کو شک رہ گیا ہے کہ عراق پر حملہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ نہیں تھا، بلکہ محض تیل پر قبضے کی خاطر کیا گیا تھا۔اب بھی عراق میں شیعہ سنی لڑائی اور پھر اکیسویں صدی میں قائم ہونے والی نئی خلافت آئی ایس آئی ایس کی کبھی حوصلہ افزائی اور کبھی اس کے خلاف کارروائی کا اصل مقصد یہی ہے کہ مغرب اور اس کے حمایت یافتہ جاپان جیسے ملکوں کو تیل کی فراہمی پر صورت قائم رہے۔مجھے یاد ہے کہ ستر کے عشرے میں جب تیل کا بحران پیدا ہوا تو امریکہ کو نظر آنے لگا کہ مشرق وسطیٰ سے تیل کی مغرب کو فراہمی خطرے میں ہے۔سوال پیدا ہوا کہ اگر عربوں نے اس پابندی کو ختم نہ کیا تو کیا ہو گا۔اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے مندرجہ ذیل تاریخی بیان جاری کیا تھا۔
We would not rule force out if the free world or the industrialized world will be strangulated.
یعنی اگر ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا گلا گھونٹا گیا تو پھر ہم طاقت کے استعمال کو خارج ازامکان نہیں سمجھیں گے۔گویا کسنجر نے واضح دھمکی دی تھی کہ صنعتی دنیا کو تیل کی فراہمی کی خاطر جنگ سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ستر کے عشرے میں او پیک کے قیام سے تیل کی فراہمی تو بحال ہو گئی مگر تیل کے نرخ بھی بڑھے اور ساتھ ہی مغربی ملکوں کی ان کوششوں میں بھی اضافہ ہو گیا کہ کس طرح مستقبل میں ایسی کسی صورتحال سے بچا جا سکے جس میں صنعتی دنیا کا گلا گھونٹا جانے کا امکان ہو۔
دنیا بھر میں تیل اور گیس کے بیشتر ذخائر مسلم ملکوں کی زمین کے نیچے ہیں لہٰذا بظاہر جس طویل المیعاد پالیسی پر عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے وہ یہی ہے کہ ان ملکوں کو مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا عمل نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ اس میں تیزی کے لیے بھی مسلسل کوشش کی جائے۔اس وقت تک مغربی دنیا کی اس ضمن میں سب سے کامیاب پالیسی وہی ہے جس کا ذکر سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کے مباحثے کے دوران ہوا تھا۔اس مباحثے میں پوچھا گیا کہ سوویت یونین کی شکست کے بعد کیا اب مغرب ‘اسلام کے ساتھ جنگ کا متمنی ہو گا ۔جواب ملا تھا ۔
No we don't want war with Islam rather we want war within Islam.
یعنی ہم اسلام کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے بلکہ ہم اسلام کے اندر جنگ چاہتے ہیں۔یعنی اسلام کے اندر مختلف مذہبی گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑتا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں ان کے ملکوں کے نقشے بدلتے رہیں اور وہ کبھی متحد نہ ہو سکیں۔اصل مقصد وہی ہے کہ تیل کی فراہمی جاری رہے لیکن بنیاد پرست عیسائیوں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مسلم دنیا کے ساتھ محاذ آرائی تہذیبوں کا تصادم ہے اور یہ کہ ہزار برس پرانی صلیبی جنگیں اب بھی چل رہی ہیں۔مغربی دنیا کی یہ پالیسی اس وقت تک کافی کامیاب دکھائی دیتی ہے مگر اس میں ایک بڑی خامی ہے جو مغرب کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی۔دنیا بھر میں جتنے بھی مسلمان ہیں‘ جن جن ملکوں میں بھی وہ رہتے ہیں اور بھلے ان کے اعمال اکثر صورتوں میں اچھے دکھائی نہیں دیتے مگر ایک ایسی انسیت دوسرے مسلمانوں کے لیے ان کے سینوں کے اندر ہر وقت موجود ہوتی ہے جو کسی بھی موقع پر باہر آ جاتی ہے اور یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔عیسائی دنیا پر قیامت تک باہم دست و گریبان رہنے کی جو دائمی لعنت موجود ہے اور جس کا مظاہرہ گزشتہ صدی میں دو بڑی جنگوں میں دنیا دیکھ چکی ہے‘مسلم دنیا پر نہ صرف ایسی کوئی لعنت نہیں بلکہ اس کے الٹ ایک قدرتی انسیت موجود ہے جس کا اظہار اس مصرعے میں موجود ہے ع
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی
گزشتہ صدی کی دو بڑی جنگوں کے بعد مصنوعی طور پر عیسائی دنیا مل جل کر رہنے کے لیے کوشاں ہے۔ مگر دیکھیں یورپی یونین میں شامل ملک اپنی شناخت پر کوئی مصالحت نہیں کرتے۔پوری دنیا کا استحصال کر کے دولت جمع کرنے کے عمل نے ان کو اکٹھا رکھا ہوا ہے مگر بعض صورتوں میں معاشی آسودگی بھی ایک کو دوسرے سے الگ ہونے سے نہیں روکتی۔تازہ مثال سکاٹ لینڈ کی ہے جو اگلے ماہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے یو کے سے الگ ہونا چاہتا ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ سازش کے تحت تو ان کے ملکوں کے ٹکڑے ہو چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ جس وقت بھی سازش کرنے والے کمزور پڑ گئے تو مسلمانوں ملکوں کو پہلے تو اپنے اپنے خطوں میں امن نصیب ہو گا۔اس امن کی حالت میں جب کچھ نسلیں گزر جائیں گی تو پھر ان کے دلوں کے اندر موجود انسیت ان کو مجبور کر دے گی کہ ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر ہوتے جائیں۔اس قربت کی شکل ماضی کی سلطنتوں کی نسبت مختلف بھی ہو سکتی ہے مگر مغرب کے لیے سوہان روح ہی ہو گی۔
مغربی دنیا کے کرتا دھرتا جب بھی کوئی پالیسی بناتے ہیں تو وہ اس بات کا ادراک کر ہی نہیں سکتے کہ عیسائی دنیا پر آپس میں لڑتے رہنے کی لعنت موجود ہے اور یہ کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے انسیت کا جذبہ قدرت کا و دیعت کردہ ہے۔اس وقت حالات کے جبر نے عیسائی دنیا کو اکٹھا رکھاہوا ہے اور جبر ہی سے مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ہر جبر کی ایک میعاد ہوتی ہے جب وہ ختم ہو جائے تو چیزیں اصلی حالت پر آ جاتی ہیں۔ہمارے اعمال تو بہت ہی برے ہیں لہٰذا ہم لوگ اپنی زندگی میں تو یہ جبر ختم ہوتانہیں دیکھ سکتے مگر ہماری آئندہ نسلیں یقینا چیزوں کو اپنی اصلی حالت پر آتا دیکھیں گی۔انشاء اللہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں