"ARC" (space) message & send to 7575

دھرنوں سے پہلے اور دھرنوں کے بعد

مغربی دنیا کے ادب میں ہنرک ابسن (Henrik Ibsen) کو جدید ڈرامے کا بانی کہا جاتا ہے۔ میں آج کل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ہنرک ابسن کے ایک معرکہ آراء ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ یاد آتا ہے۔ پرانی بات ہے ۔میرے ذہن میں ڈائیلاگ اس طرح محفوظ ہے:
‘‘I feel myself a Napoleon, whose first battle became Water loo.''
ڈرامہ نگار نے ایک کردار کے اس مکالمے کے ذریعے وہ کیفیت بیان کردی ہے جو ایسے شخص کی ہوتی ہے جو سمجھتا ہے کہ وہ بہت کچھ کر سکتا تھا مگر قسمت اس شخص کو پہلے معرکے میں ایسی صورتحال سے دوچار کر دیتی ہے کہ پھر سنبھلنا ممکن نہیں رہتا۔ 
تاریخ میں درج ہے کہ نپولین کو واٹر لُو کی لڑائی میں ایسی شکست ہوئی تھی جس سے اس کا سب کچھ ختم ہو گیا تھا مگر اس آخری لڑائی سے پہلے اس حکمران نے بڑے معرکے لڑے تھے۔ کبھی فتح ہوتی تھی کبھی شکست ہوتی ،مگر واٹر لُو میں فیصلہ کن شکست ہو گئی تھی۔ اگر اس کا پہلا معرکہ واٹر لُو ہوتا تو تاریخ میں نپولین کا نام ہی نہ ہوتا۔ 
ہنرک ابسن کا ڈرامہ نارویجین زبان میں تھا جو دنیا بھر میں انگریزی ترجمے کی وجہ سے مقبول ہوا۔ میں نے بھی برسوں پہلے انگریزی ترجمہ پڑھا تھا اور اس وقت اس مکالمے نے مجھے اس قدر متاثر کیا تھا کہ آج تک یہ اس شکل میں میرے حافظے میں محفوظ ہے ، تاہم یاد مجھے یہ عمران خان کی اسلام آباد میں میڈیا سے اُس گفتگو کے دوران آیا ،جس میں موصوف فرما رہے تھے کہ قبل ازیں مسلم لیگ ن‘ ان کی جماعت کے ساتھ مذاکرات میں مان گئی تھی کہ تحقیقات کرنے والے کمیشن میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کی نمائندگی ہوگی ،لیکن اب نہیں مان رہی۔ 
تب میرے ذہن میں عمران خان کی سترہ سالہ سیاسی جدوجہد گھوم گئی۔ کس محنت سے انہوں نے تحریک انصاف بنائی ۔شروع کے دنوں میں کس قدر مذاق اڑایا گیا موصوف کا۔ خاص طور سے سیاستدانوں کی طرف سے۔ پھر سیاست کی خاطر اپنی شادی کو خطرے سے دوچار کرنا پڑا۔ بچوں سے دور رہنا پڑا۔ اس کے بعد سیاستدانوں سے دھوکے کھائے۔ سیاستدانوں سے کیا حکمرانوں سے بھی دھوکے کھائے۔ آخرکار تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت بن گئی۔ اب نوجوانوں کی ایک قابل ذکر تعداد اس جماعت کا اہم حصہ ہے اور خواتین‘ بوڑھوں ،حتیٰ کہ بچوں میں بھی یہ ایک مقبول جماعت ہے۔ 
اس جماعت کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو اس کے واضح طور پر دو حصے ہوں گے۔تحریک انصاف دھرنوں سے پہلے اور تحریک انصاف دھرنوں کے بعد۔ دھرنوں سے پہلے تحریک انصاف پر بڑے بڑے غلیظ الزامات لگے۔ ان کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ سب سے سنگین الزام یہ تھا کہ اس جماعت کو اداروں کی خفیہ حمایت حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے دشمنوں نے بڑی کوشش کی مگر یہ سنگین الزام وہ عمران خان کی جماعت پر چپکا نہ سکے حالانکہ میڈیا میں مسلسل تحریک انصاف کے خلاف ایک مہم چلتی رہی۔ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے بعد اور خاص طور سے سخت بیماری کی حالت میں جس طرح قوم کو جگایا ،وہ ایک قابل قدر کارنامہ تھا۔ ایک شخص جو اتنی اونچائی سے بری طرح گرا ہو‘ بستر کے ساتھ جُڑا ہوا ہو، اس کا اتنی ہمت دکھانا واقعتاً قابل فخر بات تھی۔ 
اس کے بعد جب تحریک انصاف کو معلوم ہوا کہ انتخابات میں دھاندلی ان کے اندازے سے بھی زیادہ ہوئی تو عمران خان کا ردعمل ایک زیرک سیاستدان کا تھا جس کو دکھائی دے رہا تھا کہ اگلا الیکشن اسی کی جماعت جیتے گی ۔اس کو صرف یہی چاہیے کہ قوم کو برسراقتدار جماعت اور اس کی ہمنوا نام نہاد اپوزیشن کی اوقات سے مسلسل آگاہ کرتا رہے۔ 
تحریک انصاف کو نظر آ رہا تھا کہ اس کی مقبولیت کو حکمران اور دیگر سیاستدان کبھی کم نہیں کر سکتے۔ شریف برادران نے لیپ ٹاپ قسم کی سکیمیں چلائیں‘ یوتھ میلوں پر کروڑوں خرچ کیے مگر تحریک انصاف آگے ہی بڑھتی رہی اور تندیٔ بادِ مخالف کا مقابلہ کرتے ہوئے مزید اونچا اُڑتی رہی۔ عمران خان نے دھاندلی کے مسئلے پر انتہائی تدبر سے مسلم لیگ ن کو دبائو میں رکھا ہوا تھا۔ 
وہ کہتے ضرور رہے کہ اگر مجھے انصاف نہ ملا تو میں سڑکوں پر آئوں گا مگر اس اعلان کی افادیت یہی تھی کہ اس سے اگلے انتخابات تک جو کہ وسط مدتی بھی ہو سکتے تھے حکمرانوں کو خوف کے عالم میں رکھا جائے۔ 
یہ تو احوال تھا پاکستان تحریک انصاف کا دھرنوں کی سیاست سے پہلے کا۔ اس کے بعد شروع ہوتا ہے دھرنوں کا دور‘ اور پھر ان کے بعد کا دور جو ابھی آنا ہے مگر نظر سب کو آ رہا ہے۔ 
دھرنوں کی سیاست کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تحریک انصاف نے دھرنوں سے پہلے اگر دوسری جماعتوں کے ایسے سیاستدانوں کو ساتھ رکھا تھا جو اِدھر اُدھر گھومنے کے عادی رہے ہیں تو اس جماعت میں ہر سطح پر یہ بات ہضم ہو چکی تھی اور قومی سطح پر بھی عام لوگ سوچنے لگے تھے کہ تحریک انصاف بڑی جماعت ہے۔ اگر دو چار لوٹے آ گئے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ مگر دھرنوں میں جو نظر آنے لگا ،وہ یہ تھا کہ شیخ رشید صاحب جن کے بارے میں خود چیئرمین تحریک انصاف کی رائے اچھی نہ تھی آگے آگے دکھائی دیے۔ پھر طاہرالقادری جن کی محدود پیمانے پر کٹر قسم کی Following سے کوئی انکار نہیں کرتا مگر قومی سطح پر اُن کا کردار بہت محدود تھا ،وہ بھی دھرنوں کے دوران تحریک انصاف کے ہم رکاب نظر آئے۔ اس کے بعد چودھری برادران جن کی سیاست‘ جنرل مشرف کے جانے کے ساتھ ہی تقریباً ختم ہو چکی تھی اور 2013ء کے انتخابات میں تو ان کے پاس کوئی سیاسی اثاثہ بچا ہی نہیں تھا،وہ بھی ایک طرح سے تحریک انصاف کے ساتھ نظر آئے۔ یہ باتیں کوئی ہضم نہیں کر سکا۔ میری رائے میں خاں صاحب نے بھی ان کو کوئی سیاسی چورن کھا کر ہی ہضم کیا ہوگا۔
پھر دھرنوں کے حوالے سے جو سیاسی اندازے لگائے گئے ، مجھے یقین ہے وہ پاکستان تحریک انصاف کے نہیں تھے ،لیکن ہوا یہ کہ اب یہ اندازے عمران خان کے گلے کی پھانس بن چکے ہیں۔ اسی لیے جب انہوں نے کہا کہ میں نوازشریف کو پیشکش کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے تحت ایک ایسا کمیشن بنا دیں جو 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا چار سے چھ ہفتوں میں جائزہ لے اور اس کمیشن میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے لوگ بھی شامل ہوں تو وہ وزیراعظم کے اس دوران میں استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے توان کا یہ کہنا کسی کو ہضم نہیں ہوا۔ اس کے بعد ان کا یہ اصرار کہ یہ شرائط تو مسلم لیگ ن کی مذاکراتی ٹیم پہلے ہی مان چکی تھی ،ان کی سیاست پر بجلی بن کر گرا ہے۔احتجاج کس بلندی پر تھا اور اب... 
یہ خیالات میرے ذہن میں تھے جب اچانک مجھے ہنرک ابسن کا یہ ڈائیلاگ یاد آیا اور مجھے محسوس ہوا کہ کیا خان صاحب یہ خیال نہ کرتے ہوں گے کہ ''میں ایسا نپولین ہوں جس کی پہلی لڑائی ہی واٹر لُو بنتی جا رہی ہے‘‘۔ 
مگر امید پہ دنیا قائم ہے۔ ممکن ہے 30 نومبر کو کوئی معجزہ ہو جائے اور دھرنوں کی سیاست عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے واٹر لُو کی لڑائی ثابت نہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ کبھی عمران خان کو معاف نہیں کرے گی کیونکہ باریاں لینے والے حکمران اگر اس لڑائی میں بچ گئے تو پھر ان کو کافی عرصہ مزید بھگتنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ تحریک انصاف پر ماضی میں جو سنگین قسم کے الزامات لگتے رہے ہیں اور جن پر کوئی کان نہیں دھرتا رہا‘ یہ لڑائی اگر نہ جیتی جا سکی تو وہ تمام الزامات پھر سے جی اٹھیں گے اور دھرنوں کے دوران میں بظاہر باہر کے لوگوں کے بہکاوے میں جو امپائر کی انگلی اٹھنے کی ''لوز ٹاک ‘‘ ہوئی تھی اس سے بھی عمران خان کبھی جان نہ چھڑا سکیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں