"ARC" (space) message & send to 7575

پاپ موسیقی کہیں کی بھی ہو‘ ہوتی پنجابی ہے

گزشتہ دنوں ایک اخباری کالم میں معروف شاعر جون ایلیا کے حوالے سے یہ جملہ پڑھنے کو ملا کہ ''پولیس کہیں کی بھی ہو ''ہوتی پنجابی ہے‘‘۔ایک مرتبہ پھر اپنے پنجابی ہونے پر رونا آیا۔یہ سوچ کر غالباً جون ایلیا کی مراد یہ ہو گی کہ دنیا میں ہر جگہ کی پولیس‘ پنجابی پولیس کی طرح ہوتی ہے دل کو تسلی دے لی مگر سچ پوچھیں تو اطمینان نہیں ہوا۔
جون ایلیا صحت لفظی کا بہت خیال رکھتے تھے۔معروف فلمی اداکار اور ریڈیو ٹی وی آرٹسٹ منور سعید‘جون ایلیا کے قریبی عزیز ہیں۔ایک محفل میں منور سعید اعلانات کر رہے تھے کہ اس دوران میں حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے خواتین و حضرات کہہ بیٹھے۔ہمارے لیے تو یہ معمول کی بات ہے مگر جون ایلیا مرحوم کے لیے نہیں تھی۔محفل ختم ہوئی تو انہوں نے منور سعید کو پاس بٹھا لیا ۔بولے ''رسول اللہﷺ کی بیٹی کو حضرت فاطمہ کہتے ہو ناں؟ منور سعید بولا جی ہاں۔تو پھر بھائی جان لو کہ جب حضرات کہا جائے تو اس میں خواتین کا مفہوم بھی آ جاتا ہے۔
یہ واقعہ مجھے خود منور سعید نے سنایا تھا اور اس سے میری ایک اور الجھن بھی دور ہو گئی کہ روزانہ جو ہم مسجدوں سے اعلانات سنتے ہیں کہ ''حضرات‘ فلاں نمبر مکان والے شاہ صاحب یا چوہدری صاحب قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے ہیں۔وغیرہ وغیرہ‘‘۔ تو معلوم ہوا کہ خطاب محض مردوں سے نہیں ہوتا بلکہ خواتین بھی مخاطب ہوتی ہیں۔
جون ایلیا مرحوم‘سید محمد تقی اور رئیس امروہوی کے چھوٹے بھائی تھے۔سید محمد تقی زندگی بھر صحافت سے منسلک رہے جبکہ رئیس امروہوی ایک زود گو شاعر کے طور پر معروف تھے۔
1965ء کی جنگ کے دوران جب یہ معلوم ہوا کہ بھارت کا لاہور پر حملہ پسپا کر دیا گیا ہے تو ریڈیو کے سابق ڈائریکٹر جنرل سلیم گیلانی نے‘ جو اس دور میں ڈائریکٹر ٹرانسکرپشن سروس تھے اور ملی نغمے اور جنگی ترانے ریکارڈ کرنے پر مامور تھے ‘ رئیس امروہوی صاحب کو ٹیلی فون کیا کہ لاہور کے دفاع کے حوالے سے کوئی نغمہ بھجوا دیں۔رئیس امروہوی صاحب نے کچھ دیر بعد فون پر ہی یہ نغمہ لکھوا دیا ع
خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ یہ ملی نغمہ1965ء کی جنگ کے انتہائی مقبول نغموں میں شامل تھا۔ گیلانی صاحب کا کہنا تھا کہ رئیس امروہوی جیسا زود گو شاعر کوئی اور انہوں نے نہیں دیکھا۔ جس وقت ایوب خاں کے اقتدار کو زوال آ رہا تھا تو ریڈیو پاکستان میں ایک تحریک چل رہی تھی کہ اس ادارے کو کارپوریشن بنا دیا جائے۔ میں بطور پروڈیوسر اس دور میں کراچی ریڈیو پر تعینات تھا۔ ریڈیو کو کارپوریشن بنوانے کی تحریک میں میرے سینئر ساتھی دن رات معروف تھے۔ جبکہ ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ صاحب اس تحریک کے مخالف تھے۔
اس دور میں ریڈیو سٹیشن پر کوئی کام خراب ہو جائے تو طاہر شاہ صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ کی تان اس جملے پر ٹوٹتی تھی''فیر کیندے او کارپوریشن بنا دیو‘‘۔ مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ کام تو ٹھیک سے ہوا نہیں اور پھر کہتے ہو کارپوریشن بنا دو۔ 
جو لوگ ریڈیو کو کارپوریشن بنانے کی مہم چلا رہے تھے انہوں نے سوچا کہ اخبارات سے اس سلسلے میں مدد لینی چاہیے۔ لہٰذا ایک گروپ رئیس امروہوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے حق میں ایک قطعہ لکھ دیں۔ وہ ایک اخبار میں روزانہ حالات حاضر سے متعلق ایک قطعہ لکھاکرتے تھے اور غالباً وہ اخبارات میں حالات حاضرہ پر قطعہ لکھے جانے کی روایت کے بانی بھی ہیں۔
خیر ۔ رئیس امروہوی صاحب نے وعدہ فرما لیا۔کوئی دو دن بعد انہوں نے قطعہ لکھا اس کا آخری مصرع مجھے یاد ہے ۔وہ تھا ع 
جن پہ تکیہ تھا وہ مرغے اذاں دینے لگے
جو لوگ کارپوریشن بنانے کی مہم چلا رہے تھے وہ اس قدر خفا ہوئے۔لیکن بہرحال رئیس امروہوی نے ایک طرح سے ریڈیو والوں کا احتجاج تو حکام بالا تک پہنچا دیا تھا ریڈیو والے کہاں مطمئن ہوتے تھے۔وہ رئیس امروہوی کے بڑے بھائی سید محمد تقی کے پاس پہنچ گئے جو کہ اخبار کے ایڈیٹر تھے۔تقی صاحب نے کہا کوئی بات نہیں۔آپ کا مسئلہ سنجیدہ ہے اس پر ادارہ لکھ دیتے ہیں۔ہمارے ایک آرٹسٹ ہوتے تھے افضل صدیقی۔وہ ہفتہ وار ریڈیو وغیرہ فیچر''حامد میاں کے ہاں‘‘ میں ایک کردار کیا کرتے تھے۔افضل صدیقی صاحب‘ تقی صاحب کے اخبار کے ملازم تھے اور ادارتی نوٹ وغیرہ لکھنے پر مامور تھے۔
فیصلہ ہوا کہ ریڈیو والے اپنے مسائل افضل صدیقی صاحب کو سمجھا دیں گے اور وہ اداریہ تحریر کر دیں گے اور پھر اس کو شائع کر دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ ہو گیا اور ادارے چھپ گئے۔اداریے میں مسائل تو تمام ریڈیو پاکستان کے درج تھے مگر آخری جملہ یہ تھا ''لہٰذا آل انڈیا ریڈیو کو کارپوریشن بنا دیا جائے‘‘ اب جناب جو ٹیم کارپوریشن بنوانے کی مہم چلا رہی تھی اس کی اور بھی سبکی ہوئی۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا وہاں بھی یہ اخبار پڑھا جاتا تھا۔وہاں راجشاہی اور کھلنا جیسے ریڈیو سٹیشنوں سے پیغامات آئے کہ بھئی یہ کس قسم کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
بہرحال تحقیق کی گئی تو افضل صدیقی صاحب کے ہاتھ کا مسودہ نہیں مل رہا تھا۔آخر کسی نے بتایا کہ معلوم کریں اس روز تقی صاحب نے اچکن کون سی پہنی ہوئی تھی۔ اچکن کا معلوم ہوا تو وہ تقی صاحب کمرے میں ٹنگی تھی۔ اس کی جیب سے مسودہ برآمد ہوا اور اس میں انہو ں نے اپنے ہاتھ سے محض ایک تبدیلی کی ہوئی تھی کہ ریڈیو پاکستان کو کاٹ کر اس کی جگہ آل انڈیا ریڈیو لکھ دیا تھا۔
غالباً تقسیم ہند سے پہلے سے تقی صاحب‘اس اخبار سے جب یہ دہلی سے نکلتا تھا منسلک تھے۔ پتہ نہیں کس کیفیت میں تھے کہ ریڈیو پاکستان کے لفظ کو آل انڈیا ریڈیو سے بدل دیا۔
اس واقعے کے بعد تو ریڈیو کو کارپوریشن بنوانے کی تحریک ایک مذاق ہی بن گئی تھی لیکن اس کے باوجود تمام ریڈیو سٹیشنوں کا دبائو کافی تھا اور ایوب خاں کی حکومت متزلزل تھی لہٰذا کابینہ کے ایک اجلاس میں ریڈیو کو کارپوریشن بنانے کی منظوری دیدی گئی۔اس منظوری کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا کیونکہ چند دن بعد ہی جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 20دسمبر 1972ء کو ریڈیو پاکستان کو کارپوریشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
بات چلی تھی کہ اپنے پنجابی ہونے پر ‘ جون ایلیا سے منسوب یہ جملہ پڑھ کر رونا آیا کہ پولیس کہیں کی بھی ہو‘ ہوتی پنجابی ہے۔ پھر خیال آیا کہ ہم پنجابی لوگ زبان کے لحاظ سے کس قدر مسکین اور یتیم ہیں۔سوچتے پنجابی میں ہیں۔ تعلیم اردو اور انگریزی میں ہوتی ہے۔ لطف سرائیکی زبان کی کافیوں میں آتا ہے۔ حکمت کی باتیں میاں محمد کے کلام میں ڈھونڈتے ہیں اور مولویوں کا مقابلہ بلھے شاہ کے کلام سے کرتے ہیں۔اقبال پر فخر ہم کرتے ہیں مگر فکر اقبال سے فائدہ ایران والے اٹھا رہے ہیں۔اور اب ہماری پنجابی زبان جو Pop Musicمیں گھسی ہے تو معلوم ہوتا ہے جنوبی ایشیا میں موسیقی کے لیے موزوں ترین زبان پنجابی ہی ہے۔ لہٰذا ہم جون ایلیا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں''پاپ موسیقی کہیں کی بھی ہو‘ہوتی پنجابی ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں