جس انداز میں 21ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ ہوئی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنے آپ کو اس ترمیم سے تھوڑا بہت الگ ہی رکھنا چاہتی تھیں جبکہ حکومت اور ووٹنگ میں حصہ لینے والی دیگر جماعتیں بھی یہی خواہش رکھتی تھیں کہ مذہبی جماعتیں اس ترمیم سے الگ ہی رہیں تو بہتر ہے۔اس صورتحال کو مکمل اتفاق رائے تو نہیں کہا جاسکتا مگر جو کچھ ہوا وہ کافی حد تک اتفاق رائے ہی کا اظہار تھا کیونکہ اگر سو فیصد اتفاق رائے ہو جاتا تو وہ مصنوعی معلوم ہوتا۔ اسی طرح محترم رضا ربانی کا آبدیدہ ہوجانا بھی اچھا لگا اور اعتزاز احسن کی طرف سے جو تاثر پیش ہوا وہ بھی برا نہیں تھا۔ پھربلاول بھٹو نے پارلیمنٹ پر جس طرح طنز کیا یہ بھی اس امر کا غماز ہے کہ ہم اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے بھی مبینہ طور پر آئینی ترمیم کی مخالفت کی ہے اور تاحال وہ حکمران جماعت کا حصہ ہیں۔ میری نظر میں سب کچھ قومی سطح پر ہماری بلوغت کا آئینہ دار ہے جو کہ ایک نہایت نیک فال ہے۔
ماضی میں جب ہماری قوم میں بالغ نظری کی کمی تھی تو اختلاف رائے کو جرم سمجھا جاتا تھا اور برداشت کا مادہ مفقود تھا۔ اسی وجہ سے ہمارے حکمرانوں نے شروع دن سے ہی بنگالی بھائیوں کی ایک نہ سنی، ان کے اختلاف رائے کو جرم سمجھتے رہے اور بطور وزیراعظم کسی بنگالی کو بھی برداشت نہ کیا۔ مشرقی پاکستان کے انتہائی تیسرے درجے کے لوگ جو باقاعدہ وہاں غنڈے بدمعاش کے طور پر معروف تھے ان کو مشرقی پاکستان کے نمائندے کے طور پر کابینہ میں وزیر بنایاگیا۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ حکمرانوں کی چمچہ گیری کرتے تھے اور حکمرانوں کی مخالفت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
ایوب خان کے دور میں ایک بنگالی وزیر ہوتے تھے فضل القادر چودھری۔ ایوب خان جب مشرقی پاکستان کے دورے پر ڈھاکہ میں تھے تو انہوں نے فضل القادر سے شکایت کی کہ مشرقی پاکستان کے اخبار روزنامہ اتفاق کا مدیر حکومت کے خلاف اداریے لکھتا ہے۔ شکایت سن کر اس وقت تو فضل القادر چودھری خاموش رہے لیکن اگلے روز وہ ایوب خان کے سامنے ایک بنگالی کو جوتوں سے پیٹتے ہوئے لے کر آئے۔ جوتا مارنے کے ساتھ ہی بولتے تھے '' ہمارے صدر کے خلاف لکھتا ہے‘‘ ایوب خان بہت پریشان ہوئے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ فضل القادر چودھری روزنامہ اتفاق کے ایڈیٹر کو ان کے سامنے جوتے سے مار رہے ہیں تو ایوب خان بدمزہ ہوئے اور فضل القادر چودھری کی ہلکی سی سرزنش بھی کی۔
فضل القادر چودھری کی علمی قابلیت کا اندازہ کرنا ہو تو وہ اس واقعے سے ہوسکتا ہے کہ کراچی میں ایک بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں موصوف وفاقی وزیر ہونے کی وجہ سے مہمان خصوصی تھے۔ اس کانفرنس میں دیگر مسلم ملکوں کے سکالرز کے علاوہ مقامی طور پر اے کے بروہی اورڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جیسے مقررین شریک تھے۔ اس اہم کانفرنس کے دوران ایک تو موصوف تقریباً غنودگی کی حالت میں رہے اور رات دیر گئے جب ان کو تقریر کرنے کے لیے کہا گیا تو سٹیج پر آکر فرمایا۔ '' دیکھو بھائی میں کوئی سکالر نہیں ہوں، لیکن تم دیکھو کھرشٹان (کرسچین کو بنگالی لوگ اسی طرح بولتے ہیں) کا نبی کیسی عجیب موت مرا، اور ہمارا نبی آرام سے اس دنیا سے گیا۔
اب ان باتوں کا کوئی ترجمہ کرے تو کیا کرے کیونکہ بین الاقوامی کانفرنس میں کافی غیر ملکی مندوبین بھی تھے۔اس قسم کے لوگ تھے جو مشرقی پاکستان میں ہمارے حکمرانوں کے منظور نظر تھے۔ خواجہ شہاب الدین جیسے سمجھدار لوگوں کو بھی ایوب خان نے اپنی کابینہ میں رکھا مگر یہ لوگ ایک فاصلے پر ہی رکھے جاتے تھے اور ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جس دن اختلاف رائے کا اظہار کیا وہ کابینہ میں آخری دن ہوگا۔
ایوب خان کو فضل القادر چودھری جیسے لوگ قبول تھے جن کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ کیا ہے۔ ایوب خان کے دور میں حکومتی پالیسیوں پر سو فیصد اتفاق رائے حاصل کیا جاتا تھا اور اختلاف رائے کا کہیں سے اشارہ بھی ملتا تو اس کو کچل دیا جاتا تھا۔ موصوف کا بنیادی جمہوریت کا نظام انتہائی ناقص ثابت ہوا لیکن آپ اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں آپ کو اس نظام کی شان میں قصیدے ہی قصیدے ملیں گے۔
ریڈیو میں قومی نشریاتی رابطے پر صبح کے وقت ایک مذہبی پروگرام نشر ہوتا تھا جس کا عنوان تھا '' قرآن حکیم اور ہماری زندگی‘‘ اس پروگرام میں مختلف مذہبی موضوعات پر تقاریر نشر ہوا کرتی تھیں۔ خوشامد کی صورتحال یہ تھی کہ بعض مذہبی لوگ بالواسطہ طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ بنیادی جمہوریت کا نظام ہی اصل میں اسلام کے شورائی نظام کی جدید شکل ہے۔ پھر کیا ہوا یحییٰ خان کے دور میں اس نظام کا نشان بھی نہیں ملتا تھا۔
یحییٰ خان کے دور میں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ تھوڑا بہت اختلاف رائے بھی برداشت کرلیا جاتا تھا۔ جنرل شیر علی ، یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو تو ایک طرح سے حزب اختلاف میں تھے اور حکومت کے خلاف جلسے کیا کرتے تھے۔جنرل شیر علی کو چیلنج کیا گیا کہ اگر دم ہے تو اپنے مخالفوں کی بھی خبر ریڈیو ، ٹی وی پر دیا کرو۔ اس پر جنرل شیر علی نے خبروں کے بلٹن میں اپوزیشن کی مختصر خبروں کی اجازت دیدی تھی۔ آواز البتہ حکومتی لوگوں ہی کی نشر ہوتی تھی۔
جب بھٹو صاحب برسراقتدار آئے تو انہوں نے بھی اپوزیشن کوخبروں کی محض نیوز بلٹن تک ہی محدود رکھا۔ 1977ء کے انتخابات کے دوران ریڈیو پر روزانہ پندرہ منٹ کی انتخابی سرگرمیوں کی رپورٹ نشرہوتی تھی۔ پہلے دس منٹ بھٹوصاحب کی تقریروں سے اقتباسات ہوتے تھے اور پھر آخر میں چار منٹ پاکستان قومی اتحاد کے جلسوں سے متعلق نیوز رپورٹ ہوتی تھی۔
آج 7جنوری ہے جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔1977ء میں 7جنوری ہی کو بھٹو صاحب نے دو ماہ بعد یعنی 7مارچ کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کا سال تھا۔ بھٹو صاحب لاہور کے دورے پر آئے۔ صبح مزار اقبال پر انہوں نے علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کا آغاز کیا اور پھر وہاں سے جب لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو اچانک انتخابات کااعلان کردیا۔ یہ اعلان بعدازاں 4اپریل 1979ء کو ان کی پھانسی پر منتج ہوا۔
بھٹو صاحب بھی اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے قائل نہ تھے۔ وہ بھی سو فیصد اتفاق رائے کے متلاشی رہتے تھے ۔ ان کے اسی رویے نے ہمیں جنرل ضیاء الحق تحفے میں دیے جنہوں نے اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کا وہ حشر کیا کہ آج تک اس حوالے سے ان کا نام امر ہے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی دو دو حکومتیں بھی اسی ڈگر پر قائم تھیں۔ ایک دوسرے کو سیاسی مخالف کے بجائے دشمن سمجھتی تھیں ۔پھر ہم نے مشرف کا دور دیکھا۔ مشرف نے کافی حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ میڈیا کو آزادی دیدی اور نجی ٹی وی چینل ہر طرف پھیل گئے۔ پھر پیپلزپارٹی کی پانچ سال کی حکومت نے بھی بہت برداشت کا مظاہرہ کیا اور اختلاف کرنے والوں کو محض سیاسی حریف ہی باور کیا۔ اس تمام پس منظر کے بعد اب اگر مخصوص حالات میں 21ویں آئینی ترمیم کی مخالفت میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں تو یہ محض اس بات کا پتہ دے رہی ہیں کہ قومی سطح پر ہم بالغ ہوگئے ہیں۔ ہم سو فیصد اتفاق رائے کے بجائے اکثریتی رائے پر گزارا کرسکتے ہیں اور تنقید بھی برداشت کرسکتے ہیں۔