"ARC" (space) message & send to 7575

کرکٹ‘ بھارت اور پاکستان

قوم کو ایک مرتبہ پھر کرکٹ کا بخار چڑھنے والا ہے۔ یہ کھیل اگرچہ ہمارا قومی کھیل نہیں ہے مگر عوامی کھیل یہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ہمارا عوامی کھیل محض اس وجہ سے بنا ہے کہ یہ وہ واحد میدان ہے جس میں جب کبھی ہماری ٹیم بھارت کی ٹیم کو ہرا دیتی ہے تو ہمارے ہاں کروڑوں دلوں میں ایک بے پایاں مسرت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ پھر ماضی میں ہماری کرکٹ ٹیم کا بھارت کے ساتھ میچوں میں ریکارڈ بھی اچھا رہا ہے؛ تاہم جب سے میچ فکسنگ والے میدان میں آئے ہیں ہماری ٹیم کی کارکردگی منفی انداز میں متاثر ہوئی ہے ،تاہم ہمارے لوگ پھر بھی آس لگائے رہتے ہیں کہ شاید بھارت کو ہرانے کی خوشی پھر مل جائے۔ 
جنرل ضیاء الحق کھیلوں میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے زمانے میں پاکستان ٹیلی وژن ریسلنگ چیمپیئنز کا پروگرام پیش کیا کرتا تھا جس میں خونخوار قسم کے پہلوانوں کی کشتیاں دکھائی جاتی تھیں۔ ملی بھگت سے ہونے والی نورا کشتیوں کے یہ پروگرام آج کل بھی ٹی وی سکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کو کشتیوں کے اس پروگرام میں اتنی دلچسپی ہوتی تھی کہ اگر راولپنڈی سے مری بھی جانا ہو تو اس طرح پروگرام بنواتے تھے کہ یا تو پنڈی میں وہ پروگرام دیکھ کر چلیں یا پھر اس پروگرام کے وقت سے پہلے پہلے مری پہنچ جائیں۔ جنرل ضیاء ہی کے دور میں عرصۂ دراز کے بعد بھارت کی کرکٹ ٹیم پاکستان ایک سیریز کھیلنے آئی تھی۔ 
بھارت سے پہلی مرتبہ کرکٹ کمنٹیٹر بھی پاکستان آئے تھے اور ان میچوں پر براہ راست رواں تبصرہ آل انڈیا ریڈیو نے نشر کیا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو کے ایک افسر کے کے نیّر اس ٹیم کے انچارج تھے اور ان کے ہمراہ ہندی اور انگریزی کے کمنٹیٹر تھے۔ بھارت میں جو جنوبی صوبے ہیں وہاں ہندی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی لہٰذا ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ ہندی کے ساتھ انگریزی میں بھی رواں تبصرہ پیش کریں۔ 
ان سب کے لیے قذافی سٹیڈیم میں بہت اچھا انتظام تھا ، الگ سے بوتھ بنے ہوئے تھے مگر فیصل آباد کا اقبال سٹیڈیم اس زمانے میں ابھی زیر تعمیر تھا، لہٰذا وہاں ایک مچان سی بنا کر رواں تبصرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کرکٹ ٹیم کے ہمراہ اس دور کے بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر مہاراجہ گائیکوارڈ کے علاوہ معروف کرکٹر لالہ امر ناتھ جیسے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ دورہ کرنے والی ٹیم میں لالہ امرناتھ کے دو بیٹے سریندر امرناتھ اور مہندر امرناتھ بھی شامل تھے۔ کرکٹ میچ کے دنوں میں ماحول ایسا ہوتا تھا کہ یہ سب بھارتی لوگ اور ان کے پاکستانی ہم منصب ایک جگہ موجود ہوتے تھے۔ اس زمانے میں بھارت کے ایک امپائر گنگولی کا بڑا چرچا رہتا تھا۔ یہ امپائر بھارت کے حق میں ایسے فیصلے دے چکا تھا جس پر خود بھارتی ٹیم بھی شرمندہ تھی۔ 
لنچ کے وقفے میں کسی نے لالہ امرناتھ سے کہہ دیا ،لالہ جی یہ آپ کے دیس کا امپائر گنگولی تو بڑے ہی عجیب فیصلے کرتا ہے۔ لالہ جی مسکرائے۔ بولے‘ بھائی دونوں طرف ہی یہ حالت ہے۔ کہنے لگے، میں جب برسوں پہلے بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ پاکستان آیا تو میچ سے پہلے ہم لوگ پلیئر روم میں بیٹھے تھے اور جالی کی مدد سے باہر دیکھ سکتے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک طرف سے پوری یونیفارم میں دو امپائر نکلے اور دوسری طرف سے آپ کی ٹیم کے کپتان کاردار سامنے آئے۔ کاردار کے سامنے امپائر رکے اور بولے ''کپتان جی‘ اج واسطے کی حکم اے‘‘ زور کا قہقہہ پڑا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ بعدازاں غیرجانبدار امپائروں کی پذیرائی شروع ہوئی۔ 
ہمارے معروف کرکٹ کمنٹیٹر محمد ادریس راوی ہیں کہ شکور رانا امپائر تھے اور جاوید میانداد کو انہوں نے کوئی ستر رنز بنانے کے بعد وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آئوٹ دے دیا۔ جب میانداد‘ امپائر شکور رانا کے قریب سے گزرے تو بولے، کپتان جی میں آئوٹ نہیں تھا۔ شکور رانا بولے‘ جب تین سکور تھا تمہارا اور صاف ایل بی ڈبلیو تھے‘ آئوٹ دے دیتا اس وقت تو اچھے رہتے؟
بہرحال اب تو تھرڈ امپائر اور پھر ٹیکنالوجی میں بہتری کے باعث حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں لیکن جس سیریز کی میں بات کر رہا ہوں ،اس میں امپائرنگ کے حوالے سے کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی تھی۔ اس زمانے میں ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کے بجائے ٹیسٹ میچ ہی مقبول تھے اور بھارت کے خلاف لاہور اور کراچی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بڑے سنسنی خیز انداز میں میچ جیتے تھے۔ فیصل آباد اور لاہورکے کرکٹ میچوں میں ریڈیو پررواں تبصرے کے لیے میری ڈیوٹی تھی اور مجھے یاد ہے کہ دونوں شہروں میں شائقین بڑی تعداد میں میچ دیکھنے آئے تھے۔ لاہور والے میچ میں آخری دن تو قذافی سٹیڈیم اس قدر بھرا ہوا تھا کہ میں نے بعد میں کبھی اس سٹیڈیم میں اتنا رش نہیں دیکھا۔ 
فیصل آباد والا ٹیسٹ میچ دیکھنے‘ بھارت سے وہاں کی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان منصور علی خاں پٹودی بھی آئے ہوئے تھے۔ موصوف بھارت کی فلمی ہیروئن شرمیلا ٹیگور کے شوہر اور معروف بھارتی فلم سٹار سیف علی خان کے والد تھے۔ منصور پٹودی فیصل آباد میں سہگل خاندان کے کسی ریسٹ ہائوس میں مقیم تھے۔ ہمارے اردو کے منفرد لہجے کے کمنٹیٹر محمد ادریس کی کوشش سے منصور پٹودی ریڈیو پاکستان کو انٹرویو دینے پر آمادہ ہوئے مگر ان کا اصرار تھا کہ انٹرویو انگریزی میں ہو۔ بہرحال ان کی بات ماننا پڑی اور انگریزی زبان میں اُن کا انٹرویو کر کے ہم نے میچ کے دوران چائے کے وقفے میں نشر کیا۔ 
آج کرکٹ کی دنیا میں اور ویسے بھی بھارت کا جو لہجہ ہے ،وہ اس دور کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی مجموعی صورتحال کافی بہتر تھی اور بھارت سے آنے والے لوگ پاکستان میں ترقی اور خوشحالی دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے۔ ہمارے ہاں کوئی خاص ترقی اور خوشحالی تو نہیں تھی لیکن بھارت میں چونکہ حالات بہت ہی خراب تھے لہٰذا اس موازنے میں وہاں سے آنے والوں کو ہم بہتر دکھائی دیتے تھے۔بھارت سے آل انڈیا ریڈیو کی جو ٹیم آئی تھی اس کے لوگ ہماری تنخواہوں کا سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ ایک تو ہماری کرنسی بھارت کے مقابلے میں بہتر تھی اور پھر یہاں کی تنخواہیں ان کی تنخواہوں سے دو گنا اور تین گنا تھیں۔ 
اب تو بھارت کے طرز عمل میں واضح طور پر غرور اور تکبر دکھائی دیتا ہے۔ کرکٹ کے میدان میں بھی اب بھارت نے اپنے آپ کو آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور پاکستان جیسوں کو کہہ رہا ہے ع 
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام 
بھارت کا یہ طرزِ عمل واضح طور پر چھچھورے پن کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ اگر پندرہ بیس سال میں وہ اتنی ترقی کر سکتے ہیں تو پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ یہاں غیر مستحکم قسم کی سیاسی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں پھر جنرل مشرف کا مارشل لاء آیا مگر اس دور میں بھی مشرف حکومت‘ سیاستدانوں کے چنگل میں پھنس کر رہ گئی۔ اس کے بعد زرداری دور اور اب نوازشریف کی تیسری بار وزارت عظمیٰ۔ ان تمام ادوار میں بھارت میں جو حکومتیں بھی آئیں،وہ ہماری نسبت مستحکم حکومتیں تھیں لہٰذا معاشی میدان میں بھارت ترقی کرتا گیا۔ 
اللہ کرے کہ پاکستان میں بھی مستحکم حکومتوں کا کوئی سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر محض دس پندرہ برسوں میں ہی ہم اقتصادی ترقی کے حوالے سے ایک مضبوط ملک بن کر دکھا سکتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ اسّی کی دہائی میں ہمارے حالات بھارت کی نسبت بہتر تھے‘ آج بھارت ہماری نسبت اقتصادی لحاظ سے آگے ہے۔ اگلے عشروں میں کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا لہٰذا کسی قوم کو بھی بحیثیت قوم تکبر کا شکار ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔ بھارت کے اکابرین کو تو خاص طور پر قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ بغور پڑھنی چاہیے۔ بھارت کی دوست سپرپاور سوویت یونین کا زوال تو ابھی کل کی بات ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں