کرکٹر محمد عامر بہت پُرامید دکھائی دیتے ہیں کہ وہ آخر کار دوبارہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن جائیں گے۔ ابھی ان کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملی ہے اور اسی برس ان پر عائد پابندی ختم ہونے کے بعد اگر کرکٹ بورڈ چاہے تو ان کی قسمت کھل سکتی ہے۔
مگر کیا یہ درست فیصلہ ہوگا؟
فرض کریں محمد عامر قومی کرکٹ ٹیم میں واپس آ کر کوئی میچ کھیل رہے ہیں۔ ان کی کوئی گیند نوبال قرار دی جاتی ہے۔ کیا فوراً دھیان اس طرف نہیں جائے گا کہ کہیں سپاٹ فکسنگ تو نہیں ہوئی؟ اس طرح یہ کھلاڑی کچھ بھی کرے وہ اس Perception سے بچ نہیں پائے گا۔ محمد عامر کارکردگی دکھانے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ان کی کرکٹ میں واپسی پر تنقید کر رہے ہیں وہ اپنی کارکردگی سے ان کے منہ بند کردیں گے۔ ان کا واضح اشارہ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین توقیر ضیاء کی طرف ہے جنہوں نے اس بات کی مخالفت کی ہے کہ محمد عامر کو دوبارہ پاکستانی قومی کرکٹ کا حصہ بنایا جائے۔
جہاں تک کارکردگی دکھا کر ناقدین کو خاموش کرنے کا سوال ہے تو موصوف چند برس پہلے لندن میں کارکردگی دکھا تو چکے ہیں۔ وہ کارکردگی زندگی میں کبھی ان کا پیچھا چھوڑدے گی‘ اس بات کو تو وہ بھول جائیں۔ ہمارے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ایک منجھے ہوئے سفارتکار اور انتہائی تجربہ کار شخصیت ہیں۔ ان
کی طرف سے ماضی میں محمد عامر کے معاملے میں ہمدردانہ بیانات ہمیشہ سے محل نظر رہے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ شہریار خان‘ ان کے لیے اپنے ہمدردانہ جذبات اپنی ذات تک ہی رکھیں گے اور محمد عامر کو کرکٹ کے قومی دھارے میں واپس لا کر ایسی صورتحال سے گریز کریں گے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''نہ نگلی جائے اور نہ اُگلی جائے‘‘۔ کوئی لیبل کسی پر لگ جائے تو وہ بس چپکا ہی رہتا ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم کے کپتان کو لوگ ان کے مخصوص اندازِ کرکٹ کے سبب ''ٹک ٹک‘‘ کہنے لگے تھے۔ گزشتہ دنوں ایک میچ میں اتنا تیز کھیلے کہ ریکارڈ قائم کردیا مگر ٹک ٹک کا لیبل پھر بھی وہیں موجود ہے۔
پاکستانی کرکٹ کے ابتدائی زمانے میں ہماری ٹیم کے ایک کھلاڑی ہوتے تھے مقصود احمد۔ ایک خاص سٹائل سے بیٹنگ کرتے تھے اور کھیلتے ہوئے اپنے انداز ہی سے لوگوں کا دل موہ لیتے تھے۔ بعدازاں وہ سپورٹس جرنلسٹ ہو گئے اور Merry Max کے قلمی نام سے کرکٹ پر کالم اور تبصرے تحریر کیا کرتے تھے۔ ریڈیو کے وہ کمنٹیٹر بھی تھے ا ور رواں تبصرے پر ماہرانہ رائے بھی دیا کرتے تھے۔ اس تعلق سے میری ان سے دوستی تھی کیونکہ ٹیسٹ میچ کے دنوں میں پانچ دن تک ان کا ساتھ رہتا تھا۔ انتہائی دلچسپ گفتگو
کرتے تھے۔ ایک روز کہنے لگے ،یار یہ دنیا عجیب ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو جس پر جو ٹھپہ لگ گیا بس لگ گیا۔ میں نے پوچھا ،کیا ہوا؟بولے‘ یہ بانس کی سیڑھی ہے ناں۔ وہ اشارہ کر رہے تھے اس بانس کی سیڑھی کی طرف جو ہم لوگوں نے اقبال سٹیڈیم فیصل آباد میں ایک مچان کی شکل میں بنائے گئے کمنٹری بوتھ تک پہنچنے کے لیے لگائی ہوئی تھی۔ بھارتی ٹیم دورے پر تھی اور اقبال سٹیڈیم ابھی زیر تعمیر تھا۔ میں نے پوچھا ،کیا ہوا اس بانس کی سیڑھی کو۔ بولے ،یہ تمہارا افسر ہے نہ جس کو تم چودھری صاحب کہتے ہو‘ صبح سے تین مرتبہ اس سیڑھی سے پھسل کر گر چکا ہے، کسی نے کچھ نہیں کہا، بلکہ لوگوں نے پکڑ کر کپڑے وغیرہ جھاڑنے میں بھی مدد کی ،لیکن میری کم بختی دیکھو کہ میں ہلکا سا پھسلا اور پھر گرا بھی نہیں بلکہ سنبھل گیا، لیکن سب میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے اور ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا ''مقصود صاحب آج صبح صبح بھی؟‘‘
ان کا اشارہ اپنی اس Reputation کے حوالے سے تھا جو یہ
تھی کہ اکثر دھت رہتے ہیں۔ ضیاء دور سے پہلے بڑے شہر Wet گنے جاتے تھے اور اس دور میں کسی کا بری صحبت میں پی پلا لینا معمولی بات سمجھی جاتی تھی، لیکن مقصود احمد کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ قومی سطح پر معروف ہونے کی وجہ سے یہ بات ایک مرتبہ جو ان پر چپکی تو پھر اس شہرت سے وہ کبھی اپنی جان نہ چھڑا سکے۔ گویا کوئی شہرت ہو یا کوئی لیبل ،وہ پیچھا نہیں چھوڑتا ۔لہٰذا محمد عامر ہو یا دیگر وہ کھلاڑی جن پر یہ لیبل لگ چکا ہے اور جو سزا یافتہ بھی ہیں ‘وہ کچھ بھی کرلیں‘ ہمیشہ ہی مشکوک رہیں گے۔ میرے ذاتی خیال میں ہمارے کرکٹ بورڈ کو ان کھلاڑیوں میں سے کسی کو بھی قومی کرکٹ میں واپس لانے کے فیصلہ سے گریز کرنا چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ ہماری ٹیم کی بائولنگ اتنی مضبوط نہیں لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لیے Ex.Convicts یعنی سزایافتہ مجرموں سے مدد لینا دانش مندی کی بات نہیں ہوگی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس حوالے سے اور بھی احتیاط اس وجہ سے کرنی چاہیے کہ کرکٹ کی دنیا میں بھی ہمارے دوست بہت کم ہیں۔ بھارت ،جو ہمارا ازلی دشمن ہے ،کرکٹ کا ایک چودھری بن چکا ہے۔ اگرچہ کرکٹ کی دنیا میں میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کا مرکز بھارت کو سمجھا جاتا ہے مگر نشانہ اکثر ہمارے
کھلاڑی بن جاتے ہیں۔ جس کمزوری کی وجہ سے ہم نشانہ بنتے ہیں وہ کمزوری ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں ہونے والے دہشت گرد انہ حملے کے بعد تو بین الاقوامی سطح پر ہم اور بھی کمزور ہو گئے تھے۔ اب ہمارے پاس لے دے کر بس ایک چیز رہ گئی ہے اور وہ ہے کرکٹ ٹیم کی کارکردگی۔ اس پر ہمیں کوئی مصالحت نہیں کرنی چاہیے۔
کسی بھی سزایافتہ کھلاڑی کو اگر ٹیم میں شامل کر لیا گیا تو پھر ہمارے دشمنوں (جن کی تعداد کم نہیں ہے) کو موقع مل جائے گا کہ ہماری کرکٹ ٹیم کو مستقبل دبائو میں رکھ سکیں۔ کمنٹیٹروں کو کون روک سکتا ہے۔ وہ مسلسل یہ بات یاد دلاتے رہیں گے کہ ان کھلاڑیوں کا ماضی کیا تھا۔ وہ برطانیہ میں ہونے والے واقعے کو بھی دہراتے رہیں گے‘ پھر ساتھ ہی وہ منظر بھی بار بار سکرین پر آیا کرے گا جس میں ایک میچ فکسر نوٹوں کی گڈیاں میز پر رکھ کر ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ محوِ کلام ہے۔ یہ سب کچھ ہماری ٹیم کو مسلسل دبائو میں رکھے گا جس سے ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی منفی طور پر متاثر ہوگی۔ میں پھر دہرا دوںکہ آج کرکٹ کی دنیا میں ہمارے پاس محض ایک ہی چیز رہ گئی ہے اور وہ ٹیم کی کارکردگی ہے اور اگر ہم نے اس کارکردگی کو بھی دائو پر لگا دیا تو پھر پیچھے کیا رہ جائے گا؟یہ بھی یاد رہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم کی اچھی کارکردگی ہی آہستہ آہستہ ہمارے تمام مسائل حل کر سکتی ہے اور کرکٹ کی دنیا میں ہمیں وہ مقام دلا سکتی ہے جو ہمارا حق ہے اور جس کو بوجوہ دبا لیا گیا ہے۔