آج کے دور میں کسی نوعیت کے مواد کے چھپنے پر پابندی عائد کرنا یا اشاعت شدہ مواد کو ضبط کرنا ایسی کارروائیاں ہیں جو ہر لحاظ سے بے فائدہ ہیں۔یہ کام بہت پہلے کیے جانے چاہئیں تھے۔ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا کی موجودگی میں تو کسی قسم کی تحریر و تقریر پر پابندی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاتھوں میں ہوائوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں جب رسالے یا کتاب پر پابندی عائد ہوتی تو واقعتاً اس کی عام آدمی تک رسائی محال ہو جاتی تھی۔ اسی دور میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اگر آج کے دور میں اکبر الہ آبادی ہوتے تو کتاب کو ضبط کرنے کے بجائے انہیں کوئی اور بات کہہ کر نصیحت کرنا پڑتی۔ آج کل ہمارے لیے نفرت انگیز مواد اور جہادی لٹریچر مسئلہ بنا ہوا ہے مگر کیا ان پر پابندی عائد کر کے یا ان کو ضبط کر کے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ آج کل تو کسی چیز پر پابندی لگائیں تو وہ سوشل میڈیا کی وساطت سے اور بھی زیادہ معروف ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ فوٹو سٹیٹ اور پرنٹنگ کی جدید ٹیکنالوجی کے سبب جتنا چاہے یہ مواد پھر سے چھاپا جا سکتا ہے کیونکہ جو بنیادی مسودات ہوتے ہیں وہ کمپیوٹر میں با آسانی سٹور ہو جاتے ہیں اور وہاں سے سی ڈی وغیرہ کے ذریعے حسب ضرورت منتقل ہو سکتے ہیں۔
اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ آخر کیوں ہم نفرت انگیز مواد اور جہادی لٹریچر سے ڈرتے ہیں تو جناب والا ہم اس لیے ڈرتے ہیں کہ ہماری قوم میں بہت زیادہ تعداد میں ایسے مواد کا شکار ہونے والے لوگ موجود ہیں۔ ہم اپنی قوم کو صحیح طور پر زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کر سکے۔ لہٰذا جہالت ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
جہالت تو اکیلی بھی خطرناک ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ جب غربت شامل ہو جاتی ہے تو پھر خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ غربت اور جہالت ہمارے بڑے مسائل ہیں جس کی طرف آپ خود دیکھ لیں کہ حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر ہماری کتنی توجہ ہے۔ نفسانفسی کا عالم حکومتی حلقوں میں بھی دکھائی دیتا ہے اور عوامی حلقوں میں بھی۔ ہم کیسے اس حال کو پہنچے ہیں۔ یہ تو کوئی سوشل سائنٹسٹ ہی اندازہ لگا سکتا ہے۔ مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ اس صورتحال کی جڑیں ہمارے ماضی میں موجود ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں میں لاہور سے بذریعہ ٹرین کراچی جا رہا تھا۔ ساہیوال کے سٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک صاحب ڈبے میں داخل ہوئے اور انہوں نے لیتھو پر چھپے ہوئے ایک کتابچے کی نقول ٹرین کی سواریوں میں تقسیم کرنا شروع کردیں۔ خواتین اور بچوں کو وہ کتابچہ نہیں دے رہے تھے لیکن انہوں نے تقریباً سبھی مردوں کو اس کتابچے کی ایک ایک نقل فراہم کی۔ موصوف کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا جس نے پانی کی ایک صراحی اور گلاس اٹھایا ہوا تھا اور وہ سواریاں کو پانی پلاتا جا رہا تھا۔
ٹرین میں آدمی فارغ ہی ہوتا ہے۔ جب گاڑی چلی تو میں نے اس کتابچے کی ورق گردانی شروع کی۔ خدا کی پناہ۔ اس میں مسلمانوں ہی کے ایک فرقے کی وہ برائیاں کی ہوئی تھیں کہ میری روح کانپ گئی۔ اس قسم کی شے سے کتنی بھی روح کانپے‘ انسان کی نفسیات ایسی ہے کہ وہ اس کو پڑھنا چھوڑ نہیں سکتا۔ لہٰذا میں اس کو پڑھتا ہی گیا۔
میں نے چونکہ عام سکولوں اور کالجوں سے تعلیم حاصل کی ہوئی تھی لہٰذا مجھے اس قسم کی فرقہ واریت کا کوئی اندازہ نہیں تھا لہٰذا وہ کتابچہ پڑھنے کے بعد مجھے نمایاں طور پر بدمزدگی کا احساس ہوا۔
چلتے چلتے جب گاڑی سمہ سٹہ سٹیشن پر پہنچی تو وہاں اسی طرح ایک اور صاحب کتابچے لے کر ہماری ٹرین کے ڈبے میں داخل ہوئے۔ موصوف تنہا تھے یعنی ان کے ساتھ پانی پلانے والا کوئی نوجوان نہیں تھا۔ یہ صاحب تھوڑا غصے میں دکھائی دیتے تھے اور جس سواری کے پاس پہلے والا کتابچہ دیکھتے اس کو اپنا کتابچہ دے کر کہتے ''اس میں سچی بات ہے‘‘ اور پہلے والے کتابچے کی طرف اشارہ کر کے حقارت سے کہتے ''سب جھوٹ‘ واہیات‘ یہ سب جہنمی ہیں‘‘۔
مجھے بھی نیا کتابچہ مل چکا تھا۔ گاڑی روانہ ہوئی تو میں نے اس کتابچے کی ورق گردانی شروع کی۔ یہ دوسرے اس فرقے کا ترجمان کتابچہ تھا جس کو پہلے کتابچے میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کتابچے میں لکھنے والے کو سب معلوم تھا کہ پہلے کتابچے میں کیا کچھ درج ہے لہٰذا موصوف نے ہر نکتے کا اپنی طرف سے تسلی بخش اور دندان شکن جواب دے رکھا تھا۔
یہ دوسرا کتابچہ بھی زبان و بیان کے لحاظ سے انتہائی گھٹیا تھا۔ لیکن جیسا میں نے پہلے کہا کہ ایسی چیز انسان پڑھے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔
جس وقت ٹرین کوٹری کے سٹیشن پر پہنچی تو میں دونوں کتابچے پڑھ چکا تھا۔ ان دونوں کو‘ میں نے جب ٹرین وہاں ایک بڑے پل سے گزر رہی تھی نیچے پھینک دیا۔ ایسا کرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی بوجھ تھا مجھ پر‘ جو میں نے اتار پھینکا ہے۔ اس سے پہلے میں نے زندگی میں کبھی مذہب کے حوالے سے ایسی متنازع باتیں نہیں پڑھی تھیں۔
اس واقعے سے آپ اندازہ لگا لیں کہ جس جہالت میں آج کل ہم پھنسے ہوئے ہیں یہ کب سے ہمارے سسٹم میں پنپ رہی تھیں مگر ماضی کی ہماری حکومتوں نے اور غیر حکومتی اداروں نے بھی اس ضمن میں کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ معاشرے میں پھیلتی ان غلاظتوں کا صفایا کیا جائے۔ ہمارے ہاں ایسی جہالتوں کے پودے ابھی چھوٹے چھوٹے تھے کہ قدرت نے امتحان کے طور پر ہمیں اس صورتحال سے دوچار کردیا جو جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمیں پیش آئی۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر جہادی کلچر پھیلانے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ اسی دور میں پھر جہالت کے یہ پودے تناور درخت بن گئے۔ ایوب خان کے دور میں جو اقتصادی ترقی ہم نے کی تھی وہ آہستہ آہستہ پگھلنے لگی‘ بھٹو کا دور ہو یا ضیاء الحق کا۔ نوازشریف کا دور ہو یا بے نظیر کا یا پھر مشرف دور ہو ،ہمارے عوام غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔ اور یہی غربت اب جہالت کے ساتھ مل کر ہمیں کبھی دہشت گردی کی شکل میں نظر آتی ہے کبھی فرقہ واریت کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ ان بیماریوں نے ہماری قوم کو نڈھال کر دیا ہے۔ اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے جراحی کے ساتھ ساتھ ایسی ادویات کی بھی ضرورت ہے جو جراثم کش یعنی اینٹی بائیوٹکس کہلاتی ہیں۔ فوجی آپریشن کی شکل میں جراحی کا عمل تو چل رہا ہے اور کافی کامیابی سے چل رہا ہے مگر حکومت کے ذمے یہ کام ہے کہ جراثیم کش ادویات والا کام سرانجام دے۔ یعنی جو تنظیمیں یا ادارے دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ان کا خاتمہ کرے تاکہ جراحی کے بعد زخم بھر سکے۔ اگر حکومت نے یہ کام سرانجام نہ دیا تو پھر جراحی کے بعد یہ بیماری پھر سر اٹھا سکتی ہے۔
ہفتہ کے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا تو ہے کہ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے خلاف بھی ضرب عضب جیسے آپریشن کی ضرورت ہے۔ قوم جواب میں کہہ رہی ہے جناب والا! ضرورت نہیں‘ اشد ضرورت ہے۔