پشاور میں ایک سکول پر اندوہناک دہشت گردی کی واردات کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان بنا اس کے تحت قائم ہونے والی اپیکس کمیٹیاں جس انداز میں سکیورٹی سے متعلق معاملات سے نبرد آزما ہو رہی ہیں اس سے لامحالہ دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کیوں نہ ان کمیٹیوں کے دائرہ کارمیں توسیع کر دی جائے تاکہ ہمارے ملک کے کرپشن سے متعلق مسائل بھی ان کمیٹیوں تک پہنچ سکیں۔
فی الحال ہمارے ہاں کرپشن کی بیخ کنی کے لیے نیب کا ادارہ قائم ہے۔ اس ادارے کی کوئی کارکردگی ہو گی۔ اس کے چیئرمین اخباروں میں مضامین لکھ لکھ کر اپنی کارکردگی سے مطلع بھی کرتے ہیں۔ بیانات بھی بڑے سخت جاری کرتے ہیں مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ادارہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے وہ کارکردگی دکھا ہی نہیں سکتا جو کرپشن کے خلاف جہاد کے لیے ضروری ہے۔صوبائی حکومتوں کے پاس بھی انسداد رشوت ستانی کے محکمے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ کی معائنہ ٹیمیں ہیں۔ پھر حکومت جب چاہے اور جس انداز میں چاہے پولیس کو استعمال کر سکتی ہے۔ مگر ہوتا کچھ بھی نہیں۔ کوئی اگر پکڑا جاتا ہے تو حکومت ہی میں کوئی نہ کوئی اس کا حمایتی بن جاتا ہے یا بنا لیا جاتا ہے۔ میری رائے میں اگر کرپشن کے معاملات بھی ان اپیکس کمیٹیاں کے پاس جانے لگیں تو سول اور فوجی افسروں کے ساتھ بیٹھے سیاسی قائدین مجبور ہو جائیں گے اور بدعنوان عناصر کی بیخ کنی کا عمل شروع ہو گا۔
میرا زندگی بھر کا تجربہ ہے کہ ہمارے سویلین ادارے نہ شہریوں کو انصاف دے سکتے ہیں ‘ نہ ان کو بدمعاشوں سے بچا سکتے ہیں نہ ان کی دولت اور جائیداد کی حفاظت کر سکتے ہیں اور آج ہر کوئی جانتا ہے کہ نہ ہی سویلین ادارے ہمیں دہشت گردوں سے بچا سکتے ہیں۔ اگر آپ کوئی سروے کروائیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں سویلین دور میں لوگوں کے پھنسے ہوئے کام اکثر مارشل لاء ادوار میں ہوئے ہیں۔ میری اس عرضداشت کو فوجی حکومتوں کی حمایت میں مضمون نہ سمجھا جائے تو عرض کروں گا کہ مارشل لاء کے دوران فوجی افسران تک سول حکومت کے دور کی ہزاروں نہیں لاکھوں شکایات پہنچتی ہیں اور سب کی نہیں مگر کافی لوگوں کی شکایات دور جاتی ہیں۔
آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں
مہاجرین کے بھارت میں ان کی جائیداد کے جو کلیم منظور ہوتے تھے اس رقم کی ایک بُک جاری ہوتی تھی جس کو Compensation Bookکہا جاتا تھا۔ اس بُک میں درج رقم سے مہاجرین و ہ جائیداد خریدتے تھے جو ہندو سکھ یہاں چھوڑ گئے تھے۔ محکمہ بحالیات اس تمام حساب کتاب کا ذمہ دار تھا۔ لاہور میں بحالیات کا دفتر فرید کوٹ ہائوس میں ہوتا تھا۔ معلوم نہیں شاید اب بھی ہو۔ ہمارے ایک عزیز ہوتے تھے جو واقعتاً رشوت کو حرام سمجھتے تھے۔ اُن کا ایک لطیفہ نما واقعہ بھی مشہور تھا۔ اُن کے اپنے داماد نے ایک جعلی کلیم بھرا اور گواہ کے لیے موصوف کا نام دے دیا۔ جب سیٹلمنٹ کمشنر کے سامنے پیش ہوئے توانہوں نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھوایا اور پوچھا کہ کیا آپ کے داماد کی واقعی اتنی جائیداد تھی۔ آبدیدہ ہو گئے اور سچ سچ بتا دیا کہ محض ایک چھوٹا سا پانچ مرلے کا مکان تھا۔ زندگی بھر ان کے داماد ان سے ناراض رہے۔
تو خیر ان صاحب نے اپنی Compensation Bookکے ذریعے ایک نیلامی کے دوران ایک چھوٹی سی دکان خرید لی۔ اب اس پر PTOجاری ہونا تھا یعنی Provisional Transfer Order اس کے بعدمالکانہ سند جاری ہوتی تھی۔ فرید کوٹ ہائوس میں جو کلرک تھا اس نے اس کام کی تیس روپے رشوت مانگی۔ موصوف اس کلرک کی بے عزتی کر کے گھر واپس آ گئے۔ اس کے بعد افسروں کو درخواستیں دینے لگے مگر کچھ نہ ہوا۔ آخر جب چیف سیٹلمنٹ کمشنر کو تحریری شکایت کی تو جواب آیا کہ آپ کی Compensation Bookگم ہو چکی ہے۔ ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ جب مل جائے گی تو ضروری کارروائی کے بعد PTOجاری کر دیا جائے گا۔
یہ سب واقعات اس دور کے ہیں جب ایوب خاں کی فوجی حکومت ختم ہو چکی تھی اور وہ باقاعدہ ایک منتخب حکومت کے صدر بن چکے تھے۔ لہٰذا حکومت کے طور طریقے سول حکومت والے ہوگئے تھے۔
اس کے بعد یحییٰ خان کا مختصر دور حکومت آیا تو پھر ہمارے عزیز اپنی درخواست لے کر مارشل لاء ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ وہاں سے حکم جاری ہوا تو معلوم پڑا کہ موصوف کی Compensation Book کو ہاٹ سے مل گئی ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس بک کی مدد سے کسی اور شخص نے کوہاٹ میں کسی ہندو کی چھوڑی ہوئی پراپرٹی خرید لی ہے اور وہ بک اب اس کیس کے ساتھ نتھی ہے۔
یہ معاملہ ابھی چل رہا تھا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔ بھٹو صاحب کی عوامی حکومت آ گئی۔ اس سارے دور میں ہمارے عزیز عمر رسیدہ ہونے کے باوجود اپنا کیس لڑتے رہے‘ مگر کچھ نہ ہوا۔ اکثر کہتے تھے کہ یحییٰ کا مارشل لاء ایک سال اور رہ جاتا تو میرا کام بن جانا تھا۔ خیر پھر ضیاء الحق کامارشل لاء آ گیا۔ اس کے بعد وہ پھر درخواست لے کر پنجاب اسمبلی کی عمارت پہنچ گئے۔ واضح رہے کہ جب مارشل لاء آتا تھا تو لاہور میں پنجاب اسمبلی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے دفتر میں تبدیل ہو جاتی تھی۔تو خیر اس مارشل لاء کے دوران ایک کرنل صاحب نے ہمارے عزیز کی درخواست پڑھی ۔ سارا کیس دیکھا۔ اس کے بعد حکم جاری کیا کہ بُک نئی بنا دی جائے۔ متعلقہ محکمے نے کہا: سر جب بنیادی بک موجود ہے اور کوہاٹ میں ایک کیس کے ساتھ نتھی ہے تو کیسے بنا دیں۔ کرنل صاحب نے کہا کہ آ پ کو حکم دیا ہے‘ بس اس کو Followکریں۔ فرید کوٹ ہائوس والے مجبور ہو گئے ۔پتہ نہیں انہوں نے فائل پر کیا لکھا مگر یہ کہ بک پرانے ریکارڈ کے مطابق Duplicateلکھ کر جاری کر دی اور پھر اس بُک میں سے رقم منہا کر کے PTOبھی جاری کر دیاگیا۔ اب اگر آپ اس پوری روداد کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارے عزیز کی اگر پذیرائی ہوئی تو ایک یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دور میں اور پھر دوسرے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں۔اصل میں موصوف کا کام ہوا فوجی افسروں کی وجہ سے۔
آج کل اپیکس کمیٹیوں میں ہمیں بغیر مارشل لاء کے فوجی افسر میسر ہیں‘ تو کیوں نہ ان کمیٹیوں کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے اور جہاں کہیں کرپشن پکڑی جائے معاملہ اپیکس کمیٹی کے سپرد کر دیاجائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں نے بنکوں سے قرضے لے کرمعاف کروائے ہیں ان کواپنی جائیدادیں بچانی مشکل ہو جائیں گی ۔ جنہوں نے حکومتی عہدوں پر رہ کر کروڑوں اربوں کی بدعنوانی کی ہے ان کو غیر ممالک سے اپنی رقوم واپس منگوانا پڑیں گی وگرنہ یہاں ان کا جو کچھ ہے سب ضبط ہو جائے گا۔ یہ جو سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور لینڈ مافیا کے ہاتھوں روتے دھوتے گورنر ہائوس سے رخصت ہوئے ہیں‘ یہی مافیا ز اگر اپیکس کمیٹی کے ہتھے چڑھ گئے تو یہ مافیا والے چوہدری سرور سے بھی زیادہ آنسو بہاتے دکھائی دیں گے۔سچی بات ہے ہمارے ملک کو سخت ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی حکومت کے پنجوںمیں بالکل طاقت نہیں رہی۔ سیاسی حکمران زیادہ تر بدعنوان عناصر کے بہت قریب پائے جاتے ہیں۔ یہ کبھی بھی گند صاف نہیں کر سکتے۔
آئین اور قانون کی باتیں بہت اچھی باتیں ہیں مگر آئین اور قانون نافذ کرنے کے لیے پہلے کوئی معاشرہ تو ہونا چاہیے ۔ ہمارا تواس وقت کوئی معاشرہ ہی نہیںہے۔ کرپشن نے ہمیں نفسانفسی والے ایک ایسے ہجوم میں تبدیل کیا ہوا ہے جس میںآئین کی کوئی وقعت نہیں‘ محض جنگل کا قانون چل رہا ہے۔ جو طاقت ور ہے سب کچھ اس کا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں اپیکس کمیٹیوںسے مدد لینی چاہیے اور اس طرح سکیورٹی امور کے ساتھ ساتھ ان کمیٹیوں کے ذریعے بدعنوانی کے خاتمے کے موثر اقدامات کی بھی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔