"ARC" (space) message & send to 7575

تعلیم کے نام پر غلیظ ایجنڈا

کینیڈا میں غیر ممالک سے آ کر آباد ہونے والے لوگوں کی تعداد کافی ہے۔ اس ملک میں چونکہ آبادی میں اضافے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے؛ لہٰذا امیگریشن کے پروگرام ہر دم جاری رہتے ہیں ۔ اس ملک میں اب مسلمان کافی تعداد میں آباد ہو چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قومی ایئر لائن کی بعض براہ راست پروازیں پاکستان سے اڑتی ہیں تو پندرہ سولہ گھنٹے بعد کینیڈا جا دم لیتی ہیں۔ اونٹاریو کینیڈا کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ اسی صوبے میں کینیڈا کادارالحکومت اوٹاوا واقع ہے اور یہیں کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ٹورنٹو ہے جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانیوں سمیت مسلمانوں کی بھاری تعداد اس شہر میں مقیم ہے۔
آج کل ٹورنٹو بلکہ پورے اونٹاریو کی مسلمان آبادی خاص طور پر اور دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی کافی تعداد میں اس وجہ سے پریشان ہیں کہ اس صوبے کی خاتون وزیراعظم نے چھوٹے بچوں کی جنسی تعلیم کے ضمن میں اپنا جو ایجنڈا نافذ کیا ہے وہ کم از کم مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے اس قدر اخلاق سے گرا ہوا ہے کہ اس کی تفصیل کا ذکر کرنا بھی ممکن نہیں۔
اونٹاریو کی حکمران وزیراعظم کیتھلین وین خود ببانگ دہل کہتی ہیں کہ ہم‘ ہم جنس پرست ہیں۔ موصوفہ روائتی خاندانی اقدار کی قطعاً پرواہ نہیں کرتیں۔ مغربی دنیا میں ہم جنس پرستی کے حق میں جو لہر چل رہی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیتھلین نے اپنا ایجنڈا نافذ کر دیا ہے۔
اس غلیظ ایجنڈے کی تفصیل تو تحریر نہیں کی جا سکتی لیکن سمجھانے کے لیے اختصار اور احتیاط کے ساتھ اس ایجنڈے کے کچھ پہلو یہ ہیں: سب سے پہلے چھ سال کے بچوں کو جسم کے تمام حصوں کے نام یاد کرائے جائیں گے۔ پھر آٹھ سال کے بچوں کو ہم جنس پرستی اور ایسے خاندانوں کے بارے میں آگہی دی جائے گی جن میں مرد کے ساتھ مرد رہ رہا ہے اور عورت کے ساتھ عورت۔ نو سال کی عمر کے بچوں کو Datingسکھائی جائے گی۔ گیارہ سال کے بچوں کو بتایا جائے گا کہ وہ شوہر اور بیوی جیسے الفاظ کو مسترد کر دیں کیونکہ اس ایجنڈے میں ان الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس ناپاک ایجنڈے کے تحت بارہ برس کے بچوں کو جو کچھ سکھایا جائے گا اس کا ذکر کرنا بس میں نہیں‘ صرف یہ سمجھ لیں کہ اس میں وہ عمل سکھانے کا بھی ذکر ہے جس کی وجہ سے قوم لوط پر عذاب نازل ہوا تھا۔اونٹاریو میں خاندانی اقدار کا پاس کرنے والے لوگ اس ایجنڈے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں مگر اُن کی تعداد کم ہے اور وہ کسی فیصلے کو عددی بنا پر رکوانے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف اکثریت یا تو بے حس ہے یا اُسے بے حس کر دیا گیا ہے۔
مغربی دنیا میں اس قسم کی جو کوششیں منظر عام پر آتی ہیں ان سب کے پس منظر میں اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہم جنس پرست ہیں اور اب اس انداز میں مغرب کے معاشروںمیں کھل کر سامنے آئے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف ایک لفظ بولنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ زندگی کے ہر اہم شعبے میں ہم جنس پرستوں کو گھُسا دیا گیا ہے۔ فوج تک میں یہ لوگ موجود ہیں۔ دیگر شعبوں میں انتہائی اہم عہدوں پر ہم جنس پرست کھلم کھلا بیٹھے ہیں اور اپنے جیسوں کی ہر طرح حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔شوبزنس میں تو معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم جنس پرستوں کی اکثریت ہو چکی ہے۔ سٹیج ڈرامے ہوں‘ فلمیں ہوں یا ٹی وی پروگرام ہوں ان میں Gaysاور Lesbiansکی بھر مار ہے۔ موضوعات بھی ایسے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات کہانی کا انحصار ہی ''بیچارے‘‘ ہم جنس پرستوں کے مسائل پر ہوتا ہے۔ اس وقت کم ازکم امریکہ میں خال خال ہی کوئی Sikomیا پرائم ٹائم سوپ ہو گا جس میں ہم جنس پرست کردار موجود نہ ہوں۔
یہ لوگ ویسے تو اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ''جی عام لوگ ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں ‘‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مغربی ممالک کے معاشروں کو بالکل اسی طرح جکڑا ہوا ہے جس طرح پوری دنیا کو صہیونیت کے ایجنڈے کو لے کر چلنے والے عالمی بنکرز نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہم جنس پرست اپنے نصب العین کے (وہ جو بھی ہے) حصول کے لیے جوش و خروش سے منظم ہو رہے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ اپنے کسی ہدف کا کھلے عام اظہار نہیں کرتے؛ تاہم ان کی نجی محفلوں میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے مغربی دنیا ہی کے کچھ لوگوں نے جو اندازے لگائے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں اس فعل کی اس قدر ترویج ہو جائے کہ پہلے مرحلے میں اسے بطور حقیقت قبول کرلیا جائے۔ جس کے بعد اگلے مرحلے میں جو کہ ایک صدی پر محیط ہو سکتا ہے دنیا کی اکثریت کو اپنے جیسا بنا کر آبادی میں اضافے کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کرہ ارض اب مزید آبادی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ان کا ماننا ہے کہ اگر آبادی بے لگام بڑھ گئی تو اولاً یہ دنیا رہنے کے قابل نہ رہے گی اور ثانیاً یہ ہو گا کہ
غریبوں کی اکثریت خوشحال لوگوں کی اقلیت کو نیست و نابود کر دے گی اور اس طرح مغرب نے جو پوری دنیا پر اپنی برتری قائم کی ہوئی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔یہ ایسی باتیں ہیں جن کی ہم جنس پرست آن ریکارڈ تردید کرتے ہیں لیکن جو لوگ ان کے قریب ہو کر پلٹے ہیں انہوں نے ایسی باتیں ہم جنس پرستوں کی محفلوں ہی میں سنی ہیں۔
یہ کتنا بڑا فتنہ ہے اس کا اندازہ ہم یہاں بیٹھ کر نہیں کر سکتے مگر جو ہمارے پاکستانی اور مسلمان بھائی مغربی ملکوں میں رہتے ہیں وہ اس فتنے کی زد میں ہیں۔ پہلے وہ اپنے بچوں کو ایسی صحبت سے بچانے میں لگے رہتے تھے جو ان کو اس گندگی میں دھکیل سکتی ہو اور اب تو سرکاری سطح پر جنسی تعلیم کے نام پر ایسے ایجنڈے نافذ ہو رہے ہیں جن کا کالم کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے۔
اب اونٹاریو اور ٹورنٹو میں کسی نے اپنے بچوں کو اس غلیظ تعلیم سے محفوظ رکھنا ہے تو اُسے پرائیویٹ سکول کا انتظام کرنا ہو گا۔ وہاں پرائیویٹ سکولوں کی فیس ہزاروں ڈالر ہوتی ہے ۔ اول تو اتنا بھاری خرچہ کرنا ان کے لیے سخت مشکل ہو گا اور اگر کوئی کر بھی لے گا تو وہ اپنے بچوں کو ان بچوں کی صحبت سے کیسے بچا سکے گا جو اس جنسی نوعیت کے ایجنڈے کے تحت سب کچھ سیکھ چکے ہوں گے۔ بچے تو بچوں سے بہت جلد سب کچھ سیکھ جاتے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس نوعیت کے ایجنڈے پر عملدرآمد شروع ہو گیا تو پھر ممکن ہے کافی لوگ ان ملکوں سے واپسی کا سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں