کچھ روز ہوئے ہمارے وزیراعظم کی طرف سے یہ بیان اخبارات میں چھپا کہ وہ چیلنجز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ چیلنجز کا مقابلہ تو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہی ہو رہا ہے مگر یہ کام ہماری فوج کر رہی ہے اور حکومت اور سیاستدانوں کی کسالت کے باوجود کر رہی ہے۔
جس چیلنج کی آنکھوں میں آنکھیں ہمارے وزیراعظم ڈال سکتے تھے وہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ حکومت سے نظریں چرا رہا ہے یا پھرحکومت خود ہی اس سے نظریں چرا رہی ہے۔وہ چیلنج ہے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کا اور یہی چیلنج ہے جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے عام انتخابات میں عوام سے وعدہ کیا تھا اور منتخب ہوئے تھے مگر اب تک آنکھ مچولی ہو رہی ہے۔ چیلنج کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالی جا رہیں۔
اگر آپ غور کریں تو صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے حوالے سے ہر اخبار کے صفحہ اول پر روزانہ ہی ایک خاص سائز کی خبر شائع ہوتی ہے اور اکثر اس خبر کا موضوع ملک میں جاری بجلی کی کمی کو ختم کرنے کے عزائم اور طریقوں اور اقدامات سے متعلق ہوتا ہے۔ اگرچہ میاں صاحب کا بجلی کے شعبے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ایک اہم ستون ہیں لہٰذا ان کے بیانات کی اہمیت ہے۔جب سے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی ہے میاں شہباز شریف کے اس ضمن میں بیانات پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ جذبہ ہی جذبہ ہے، عمل کچھ بھی نہیں۔
شروع کے دنوں میں یہ تاثر ملتا تھا کہ چند ہفتوں یا مہینوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا اور دو ایک برسوں میں لوڈ شیڈنگ زیادہ نہیں تو آدھی ضرور رہ جائے گی اور صنعتوں کو بھی وافر بجلی ملنے لگے گی۔ کوئلے سے بجلی کے منصوبوں کی بہت تشہیر ہوئی۔ عوام کی امنگیں بڑھتی گئیں۔ کچھ تقریبات بھی اس حوالے سے منعقد ہوئیں جن سے اور امیدیں بندھیں مگر حسب معمول ہوا کچھ نہیں۔ کہا جاتا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس حکمرانی کا تجربہ ہے۔ معلوم نہیں وہ کہاں گیا۔ کیا سوچ کر کوئلے سے بجلی بنانے کے ڈنکے بجائے گئے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے ایسے غائب ہوئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ صرف ساہیوال میں چین کے تعاون سے کسی منصوبے کا ذکر رہ گیا ہے۔ دیکھیں اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔
اب مائع قدرتی گیس یعنی ایل این جی سے 3600 میگاواٹ بجلی کی بات ہو رہی ہے اور ساتھ ہی چین سے 4 ہزار میگاواٹ بجلی درآمد کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہی کچھ اگر کرنا تھا تو تقریباً 2 برس کیوں ضائع کئے گئے۔ کیا 2 برس پہلے ایل این جی دریافت نہیں ہوئی تھی یا عوامی جمہوریہ چین دنیا کے نقشے پر نہیں تھا۔
ایک تو چند سو میگاواٹ سن کر دل خوش نہیں ہوتا۔ جہاں کمی ہزاروں میگاواٹ کی ہو وہاں چند سو میگاواٹ کیا کریں گے۔ اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات لگتی ہے اور دوسرے نندی پور پاور پروجیکٹ کی کہانی تو اب زبان زد عام ہے۔ اس لئے اب کسی منصوبے کا افتتاح ہو جانا عوام کے نزدیک اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ اس منصوبے سے کوئی فائدہ بھی ہو پائے گا۔ جس زور و شور سے نندی پور پاور پروجیکٹ کا افتتاح ہوا تھا وہ بھلا کون بھول سکتا ہے اور بعد ازاں جب اس پروجیکٹ سے بجلی کے بجائے محض اربوں روپے کا خسارہ نکلا تو حکومت کی ساکھ کم ہو گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جب چنیوٹ میں لوہے، تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہونے کی نوید سنا کر بھنگڑے ڈالے گئے تو کسی نے بھی ان اعلانات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حقیقت تو پتہ نہیں کیا ہے مگر ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا پروجیکٹ انچارج ہونا غور طلب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تھر میں کوئلے سے گیس حاصل کرنے اور پھر بجلی بنانے کی گفتگو ہر کوئی سن چکا ہے اور اس بات سے بھی سب واقف ہیں کہ تھر میں سے کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ان کو فنڈز نہیں ملے‘ دوسرے لوگ کچھ اور کہتے ہیں لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب! جوہری پروگرام کے حوالے سے ہمارے قومی ہیرو ہیں لہٰذا ان کو سات خون معاف ہیں۔ تھر اور چنیوٹ کے بعد پانچ اور کرسکتے ہیں۔
اب میاں شہباز شریف کا تازہ بیان ہے کہ چین کے تعاون سے ملک میں سے اندھیرے دور کر دیں گے اور یہ بیان بھی حسب معمول وہیں چھپا ہے جہاں روزانہ چھپتا ہے۔ توانائی کے ضمن میں خود برسر اقتدار حکومت کی اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی جو تشہیر کرتی ہے اس میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں تقابلی جائزہ پیش کر کے نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کی حکومت نے کھانے پینے اور عام استعمال کی چیزیں سستی کروا دی ہیں۔ اپنے تعلیمی منصوبوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ صحت کی سہولتوں میں اضافہ کرنے کا ڈنکا پیٹا جاتا ہے۔ گویا ہر قسم کی تشہیر ہوتی ہے۔ نہیں ہوتی تو لوڈ شیڈنگ کم کرنے کی تشہیر نہیں ہوتی‘ حالانکہ توانائی کے بحران کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح بنا کر ہی مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی تھی مگر اب اس ضمن میں کس بات کی تشہیر کرے۔ بجلی کا بحران کم کرنے کے حوالے سے کوئی معمولی سی کامیابی بھی تو تاحال نہیں مل سکی ہے۔
اب شنید ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے صدر کے دورۂ پاکستان کے دوران بجلی کے ضمن میں کچھ معاہدوں یا مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہونا متوقع ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ موسم گرما کی آمد آمد ہے‘ بجلی سے چلنے والے آلات لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں‘ بجلی کی طلب بڑھ رہی ہے اور لوڈ شیڈنگ بھی۔
ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ چیلنجز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جنہوں نے وزیرستان، خیبر اور کراچی میں چیلنجز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہوئی ہیں‘ وہ منتظر ہیں کہ کب حکومت وقت توانائی کے بحران جیسے چیلنج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گی اور عوام کو سکھ دینے کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے کو بھی وافر بجلی فراہم کرنے کی سبیل پیدا کرے گی تاکہ ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہو کر دہشت گردی سے براہ راست لڑنے والوں کی مالی ضروریات احسن طور پر پوری کر سکے۔