"ARC" (space) message & send to 7575

نیا اورپُرانا

جیسے لوگ ہوتے ہیں‘ پروردگار ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ اس قانون فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند برس پہلے جب میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کی طرف نظر اٹھاتا تھا تو لامحالہ دل میں خیال آتا تھا کہ ہم پاکستانی لوگوں کی قسمت میں اعمال کے حساب سے تو کوئی صاف ستھرا لیڈر ہو نہیں سکتا لہٰذا عمران خان کو کہاں چانس ملے گا کہ وہ پاکستان کی قیادت کر سکیں۔ 
چند برس پہلے کی تحریک انصاف ایک صاف ستھری مگر چھوٹی جماعت تھی جس کالیڈر بے داغ کردار کا مالک تھا‘ جبکہ پاکستان کی حالت اس وقت بھی وہی تھی جو آج ہے‘ یعنی کرپشن کی دلدل‘ ہر سطح پر بے ایمانی‘ عوامی سطح پر اتنی منافقت کہ کوئی کسی کا اعتبار ہی نہیں کرتا۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے۔ کیا ہم کسی کا اعتبار کرتے ہیں؟ کوئی ہمیں جو کچھ کہتا ہے کیا ہماری پہلی سوچ یہ نہیں ہوتی کہ ہو نہ ہو یہ شخص غلط بیانی ہی کر رہا ہو گا۔ ایمان کی یہ حالت ہے کہ آپ خود سڑک پر پانچ سو روپے کا نوٹ پھینک دیں ۔ آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس نوٹ کے کئی دعویدار پیدا ہو جائیں گے جو ہر نوعیت کی قسم اٹھانے کو تیار ہوں گے کہ وہ نوٹ ان کا ہے۔ منافق کی پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے‘ امانت میں خیانت کرتا ہے‘ جلد غصے میں آ جاتا ہے اور تندو تیز زبان کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتا۔ عام آدمی کو چھوڑیں اپنے لیڈروں ہی کو اس پیمانے پر جانچ لیں ۔ مزید برآں مندرجہ ذیل تین شعبوں پر ذرا غور کریں:
1۔ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف کی صورتحال کیا کسی سے ڈھکی چھپی ہے؟2۔ صحت کے شعبے کی جو صورتحال ہے وہ اس قدر دگرگوں ہے کہ صحت کی سہولتوں کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا کے بدترین ملکوں میں ہوتا ہے۔3۔ آبادی بڑھ رہی ہے اور روزگار کے مواقع کم سے کم تر ہو رہے ہیں۔ روزگار فراہم کرنے کا شعبہ مسلسل منفی کارکردگی دکھا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تین چیزیں فی زمانہ انسان کو بری طرح برباد کر دیتی ہیں۔ بیماری‘ بے کاری اور مقدمہ۔ آپ خود دیکھ لیں ان تینوں کی ہمارے ہاں کس قدر بہتات ہے۔ اور ان تینوں سے متعلقہ قومی زندگی کے تینوں شعبوں کی کیا حالت ہے۔ ان حالات میں کیسے ممکن تھا کہ ہمیں ایک ایسا راہبر مل جاتا جو پاک صاف ہوتا لہٰذا عمران خان کا سیاسی میدان میں مستقبل مجھے انتہائی تاریک دکھائی دیتا تھا۔
پھر کیا ہوا‘ کچھ پتہ نہیں کیا ہوا۔ مینار پاکستان پر پاکستان تحریک انصاف نے ایک بہت بڑا جلسہ عام کر لیا۔ اس جلسے کے بعد دبی دبی زبان میں اس جماعت کے بارے میں ایسی باتیں سننے میں آنے لگیں جو پہلے کبھی اس جماعت کے حوالے سے سننے میں نہیں آتی تھیں۔ مینار پاکستان ہی پر ایک اور بڑے اجتماع میں عمران خان نے اس وقت جاری بارش کو ابر رحمت قرار دیتے ہوئے قوم سے جو وعدے کئے ان میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ وہ ہمیشہ قوم سے سچ بولیں گے۔بعد میں قوم نے جو کچھ دیکھا اس سے تو اب شبہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت بھی سچ بول رہے تھے یا نہیں۔کیونکہ جتنی جلدی تحریک انصاف اور اس جماعت کے چیئرمین عمران خان نے اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو اس قوم کی قیادت کے قابل بنایا ہے‘ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ غالباً موصوف نے سوچا ہو گا کہ قوم تو بدل نہیں سکتی کیوں نہ ہم خود ہی اپنے آپ کو بدل کر اس قوم کے قابل ہو جائیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان تحریک انصاف نے جو سیاسی دائو پیچ دکھائے ہیں اس سے مکمل ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ یہ جماعت اب پاکستان پر حکومت کرنے کی اہل ہو چکی ہے۔میری نظر میں اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے اگر تحریک انصاف کا موازنہ کیا جائے تو آپ کو تینوں ایک جیسے کردار کی حامل دکھائی دیں گی‘ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف سب سے زیادہ پاپولر جماعت ہے۔ اب رہ گئی بات تحریک انصاف کو اقتدار ملنے کی تو اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگرچہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے میدان سیاست کی پاکستانی شکل کو مکمل طور پر اپنا لیا ہے مگر اقتدار تو بہرحال مقدر کا کھیل ہوتا ہے۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آصف زرداری کبھی پاکستان کے حکمران ہوں گے یا پھر میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جائیں گے‘ لیکن تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔
پتہ نہیں مجھے نئے عمران خان کی نسبت وہ پرانا عمران خان کیوں یاد آتا ہے‘ جس کے پاس صاف ستھری نسبتاً ایک چھوٹی جماعت تھی جو بغیر بیساکھیوں کے بھی بڑھ سکتی تھی مگر ظاہر ہے اتنی تیزی سے تو نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اب اگر تیزی سے بڑھی ہے تو دیکھیں کیسے کیسے الزامات کی فہرست ساتھ نتھی ہے ۔ کیسے کیسے لوگ اس جماعت میں آ چکے ہیں۔ اب یہ پکی پاکستانی سیاسی جماعت بن چکی ہے اور جیسے لوگ ویسی قیادت کے اصول پر پوری اترتی ہے۔ لہٰذا اقتدار میں آ سکتی ہے بشرطیکہ تقدیر دغا نہ دے جائے۔
عمران خان یقینا سوچتے تو ہوں گے کہ وہ کیا تھے اور پاکستانی سیاست نے ان کو کیا بنا دیا ہے۔دس فٹ کے فاصلے سے ایک وفاقی وزیر پارلیمنٹ میں کہہ رہا ہے''شرم کرو‘ حیا کرو‘‘ اورخان صاحب چونکہ اب پاکستانی سیاست کے کھلاڑی بن چکے ہیں لہٰذا وہاں سب کچھ سن کر باہر آتے ہیں اور میڈیا کے سامنے اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ وہ عمران خان جس نے تحریک انصاف بنائی تھی‘ یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اول تو وہ عمران خان کبھی اسمبلی میں واپس ہی نہ جاتا اور اگر کسی یقین دہانی پر مجبوراً چلا بھی جاتا تو وہیں کھڑے کھڑے مستعفی ہو جاتا۔ لیکن کیا کریں کہ اب خان صاحب سیاست سیکھ چکے ہیں۔اسمبلی میں اس رسوائی کے بعد باہر آئے تو شیخ رشید جیسے ماہر پاکستانی سیاستدان ان کے ہمراہ تھے جو میڈیا سے خان صاحب کے فوری خطاب کا انتظام کر رہے تھے۔ پرانے عمران خان نے نیا عمران بننے کا جو سودا کیا ہے مجھے تو گھاٹے کا سودا لگتا ہے۔
میرے بچوں نے ابتدائی تعلیم ایک مغربی ملک میں حاصل کی ہے اور میں ذاتی تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ مغربی دنیا کے سکول سسٹم میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں میں ان کا نظام تعلیم نہ صرف جھوٹ سے نفرت پیدا کر دیتا ہے بلکہ وہ دھوکہ دہی کو بھی کسرِ شان سمجھنے لگتے ہیں۔ عمران خان کے دونوں بیٹے اسی سسٹم میں ابتدائی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں لتھڑے نئے عمران خان سے ان کے دونوں بیٹے‘ مایوس ہی ہوں گے۔ اور اس صورتحال میں کہ جب موصوف ایک نئی شادی کر چکے ہیں تو دوریاں اور بھی بڑھ سکتی ہیں۔ اس طرح پرانے عمران خان کا جو اپنے بیٹوں سے مضبوط رشتہ تھا وہ نئے عمران خاں کو شاید حاصل نہ رہے۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہو گا۔
مزید برآں جب یہ سیاست کے طوفان گزر جائیں گے اور عمران خان اپنی زندگی کا آڈٹ کرنے بیٹھیں گے تو ان کی جو کیفیت ہو گی اسے جو قارئین جاننا چاہیں وہ Christopher Marloweکے شہرہ آفاق ڈرامے The Tragical History of the life and Death of Faustus کا مطالعہ کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں