"ARC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی کا جواریوں والا طرز حکمرانی

بھارتی فوج کا کوئی خصوصی دستہ برما کی سرحد پار کر کے وہاں مبینہ طور پر موجود دو کیمپوں پر حملہ آور ہوا جہاں بھارت کے کہنے کے مطابق دہشت گرد بھارت کے اندر کارروائی کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔اس کے بعد ایک بھارتی وزیر جو بیان جاری کرتے ہیں وہ غور طلب ہے۔ موصوف نے چھوٹتے ہی کہا کہ برما میں کی گئی کارروائی پاکستان کے لیے بھی پیغام ہے۔
کیسی کیسی خواہش ان بھارتی قائدین کے دل میں جنم لیتی ہے۔ مگر صاحب عقل لوگوں کا وتیرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی خواہشوں کو زبان پر نہیں لاتے جن کے اظہار سے وہ مسخرے معلوم ہوں۔ بندہ پوچھے بھلا پاکستان اور برما یا میانمار کا کیا موازنہ ۔ کیا بھارتی بھول چکے ہیں کہ انہوں نے ایک کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن بنائی تھی، جس کو پاکستان نے مکمل ہونے سے پہلے Torpedo کر دیا تھا۔ دراصل بھارت میں جو صورتحال چل رہی ہے وہ نریندر مودی کا ایک ایسا طرز حکومت ہے جو طرز حکومت کم اور حکمرانی کے مختلف شعبوں میں جوا کھیلنا زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کے فرمودات ملاحظہ فرمائیے۔بولے: بھارت میں سابق حکومتیں جو کام ساٹھ برس میں نہیں کر سکیں، میں وہ ساٹھ مہینوں میں کر کے دکھائوں گا۔ چلیں بھئی ٹھیک ہے مگر آپ کا وژن کیا ہے؟ اس بارے میں خاموشی ہے۔ البتہ موصوف ایک جھاڑو پکڑ کر کسی گھاٹ پر بیٹھے دکھائی دیے اور اپنی ایک برس کی حکومت میں چھ سو تیس کروڑ ڈالر دریائے گنگا کی بحالی پر خرچ کر چکے ہیں۔
بھارت میں غریب لوگوں کی جو حالت ہے وہ پوری دنیا کو معلوم ہے، لیکن گنگا تو ماں ہے، ماں کا درجہ بلند ہوتا ہے۔ آپ نے بھارتی نغمہ تو سنا ہو گاع
گنگا میری ماں کا نام باپ کا نام ہمالیہ
گویا ماں گنگا ہے اور والد صاحب کوہ ہمالیہ ہیں۔ دونوں ہی اصل میں بھارت کے نہیں ہیں بلکہ نیپال کے ہیں۔ ہمالیہ تو ہے ہی نیپال میں جبکہ دریائے گنگا نیپال سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے باوجود گنگا پاروتی ہے اور ہمالیہ مہادیو ہے۔ بی جے پی ان کو ماں اور باپ سمجھتی ہے۔اب ایک اور اعلان سنیے۔ موصوف نے فرمایا ہے کہ وہ ایک ہزار ارب ڈالر سے 100نئے شہر بسائیں گے۔
بھارت ہی میں لوگ کہتے ہیں کہ نریندر مودی جو بھی بڑے بڑے فیصلے کر رہے ہیں ان میں کابینہ کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا جبکہ‘ کانگریس سے مشاورت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ماہرین سے بھی مشورہ نہیں کیا جاتا۔ ایک ان کے قریبی معاون ہیں جن کا اسم گرامی ہے امیت شاہ۔ شنید ہے کہ مودی اور امیت شاہ ہی تمام فیصلے کرتے ہیں اور کسی وزارت کو بھی اعتماد میں نہیں لیتے۔ ہم لوگ اپنے ہاں تو کچن کیبنٹ کے ہاتھوں تنگ ہیں اور کور کمیٹیوں نے ہمارے سسٹم کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے مگر مودی صاحب تو ان حدود سے بھی آگے جا چکے ہیں۔ بس ایک مشیر اور وہ خود ۔ واہ کیا طرز حکمرانی ہے!
بھارت میں جب انتخابات ہو رہے تھے تو نریندر مودی میڈیا پر چھائے ہوئے تھے۔ جب سے وزیر اعظم بنے ہیں بس Twitter وغیرہ پر ہی گزارہ کر رہے ہیں یا پھر غیر ملکی دورے کئے جا رہے ہیں۔ میڈیا ان کی شکل کو ترس گیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ موصوف جو کچھ کر رہے ہیں اس کی میڈیا پر کوئی توجہ فی الوقت تو ان کے لیے بھی محال معلوم ہوتی ہے۔جس طرح ہمارے ہاں نواز شریف کی حکومت کو تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی سے فائدہ پہنچا ہے اسی طرح نریندر مودی کی حکومت بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ملک کو جو مالی فوائد حاصل ہو رہے ہیں ان سے ملک میں اقتصادی استحکام کا تاثر دے رہی ہے۔ بھارت اپنی ضروریات کا اسی فیصد تیل درآمد کرتا ہے اور تیل کی قیمتیں آدھی سے بھی کم ہو جانے کی وجہ سے ہی غالباً ایسے بیانات سامنے آئے ہیں کہ ایک ہزار ارب ڈالر سے سو نئے شہر بسائے جائیں گے۔
اگر مودی حکومت کے پہلے سال کی کارکردگی کا اقتصادیات سے ہٹ کر جائزہ لیا جائے تو ہمیں دکھائی دے گا کہ بی جے پی زبردستی لوگوں کو ہندو بنانے میں مصروف رہی‘ گرجا گھروں کو آگ لگاتی رہی‘ اقلیتوں کے خلاف توہین آمیز بیانات جاری کرتی رہی۔ بی بی سی نے India,s Daughter کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی جو بھارت کی معاشرت کو آئینہ دکھاتی تھی۔ اس دستاویزی فلم پر پابندی عائد کر دی گئی اور سال بھر مسلسل بھارت‘ پاکستان کے ساتھ جان بوجھ کر تعلقات میں کشیدگی پیدا کرتا رہا۔
میری رائے میں مودی حکومت نے ایک سال کی اپنی حکمرانی میں بھارت کی جو تصویر پیش کی ہے وہ کم از کم ہماری قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔ مودی صاحب جواریوں کی طرح حکمرانی کر رہے ہیں۔ یعنی دائو لگ گیا تو لگ گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں دیکھیں موصوف نے کتنا بڑا جوا کھیلا۔ اگرچہ بی جے پی وہاں حکومت میں اپنی جماعت کی شمولیت کو اپنی کامیابی باور کرتی ہے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ مودی نے جو دائو لگایا تھا وہ سیدھا نہیں پڑا تھا۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے حکمرانی کے ہر شعبے میں کام اس قدر پھیلا دیئے ہیں کہ اب ان کو سمیٹنا محال ہو رہا ہے۔ مودی صاحب کہتے ہیں کہ وہ اپنے وژن کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وژن میں اور خواہش میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خواہش تو کسی بات کی بھی کی جا سکتی ہے۔ دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ جلد ہی بھارتی عوام یہ جان لیں گے کہ ان کے وزیر اعظم کا مبینہ وژن ان کی خواہشات کا مجموعہ تھا جو پیدا ان کی جماعت کی خوش فہمیوں سے ہوئی تھیں۔
پاکستانی قائدین کو مودی حکومت کے بارے میں خاص طور پر چوکنا رہنا چاہیے۔ اس قسم کی حکومت جو جواریوں کے سے انداز میں دائو کھیلتی ہو، کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے بیانات میں تو بھارت کے طرزعمل پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں مگر دلوں کے حال خدا ہی جانتا ہے۔ ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ تو شروع ہی سے بھارت کے طرز عمل کی شاکی رہی ہے تاہم موجودہ صورتحال میں جبکہ بھارتی رویے کے بارے میں کوئی پیش گوئی ممکن نہیں ہے، سول اور فوجی قیادت کو مل بیٹھ کر بھارت کے بارے میں مکمل یکسوئی پیدا کر لینی چاہیے۔برما میں کیمپوں پر بھارتی کارروائی جس کا ذکر میں نے اس کالم کے آغاز میں کیا، اس کی خصوصی منظوری وزیر اعظم مودی نے دی تھی۔ یہ ایسا اقدام ہے کہ ماضی کی کسی بھارتی حکومت نے کبھی نہیں کیا۔ لہٰذا ہماری تیاری ایسی ہونی چاہیے کہ اگر خدانخواستہ مودی حکومت ایسا کوئی اقدام کرے اور اپنے کسی دستے کو سرحد پار یا ایل او سی کے پار بھیجے تو پھر اس دستے کو واپس نہیں جانا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں