"ARC" (space) message & send to 7575

پاک فوج جہاد فنڈ قائم کرے

آج کل اس امر کو ایک حقیقت سمجھ لیا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر2001ء کے حملوں کے بعداگر افغانستان کے حکمران ملا محمد عمر مجاہد اس بات پراڑے نہ رہتے کہ وہ کسی طور پر بھی اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے اور کچھ تردد کے بعد اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تو افغانستان کو امریکی حملے سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔ بڑے بڑے اہم دانشور‘ تبصرہ نگار اورتجزیہ کار اپنی تحریروں میں بھر پورتاثر دیتے ہیں کہ ملا محمد عمر کے اسامہ بن لادن کے حوالے سے سخت موقف نے امریکہ کو افغانستان کے خلاف فوجی کارروائی پر مجبور کیا‘ میری نظر میں یہ بے بنیاد بات ہے۔ ملا عمر اگر اسامہ بن لادن کو خود جا کر واشنگٹن چھوڑ آتے تب بھی افغانستان پر حملہ ہونا تھا۔ حملہ کرنیوالی طاقت کو صرف ایک نیا بہانہ بنانا پڑتا‘ جس طرح عراق کے معاملے میں ہوا تھا۔ حملہ کرنے کا فیصلہ پہلے ہوا بعدمیں صدام حسین کا القاعدہ سے ناتا جوڑا گیا‘ پھر بڑی تباہی والے ہتھیار(WMD) بنانے کا الزام عائد کیا گیا اور اقوام متحدہ سے اجازت کے بغیر ہی حملہ کر دیا گیا۔
ملا عمر نے جو اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے جو انکار کیا تھا‘ وہ بنیاد بن گیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرار داد کا جو افغانستان پر امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کے حملوں کی اجازت دیتی تھی؛ تاہم اگر اس قسم کا کوئی جواز موجود نہ بھی ہوتا تب بھی اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر افغانستان پر حملہ ہو جانا تھا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ جس سرعت اور تیاری سے افغانستان پر اور پھر عراق پر فوج کشی ہوئی وہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ان حملوں کا فیصلہ کافی پہلے ہو چکا تھا۔
اب یہ پروپیگنڈہ کا کمال ہے کہ افغانستان پر حملے کا ذمہ دار ملا محمد عمر کو باور کیا جاتا ہے؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملا عمر کو پکا یقین تھا کہ افغانستان پر حملہ ہر حال میں ہونا ہے‘ چاہے وہ اسامہ بن لادن کی حوالگی کے ضمن میں ایسا فیصلہ کر دیں جو امریکہ کو قبول ہو۔ لہٰذا اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے نہ کرنے سے متعلق ان کا فیصلہ فراست پر مبنی فیصلہ تھا۔ افغان طالبان نے بعدازاں جس جذبے سے حملہ آورفوجوں کے خلاف جدوجہد کی‘ اس پس منظر میں ملا عمر کے اس فیصلے کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ افغان طالبان کے سرفخر سے بلند تھے کہ انہوں نے اصول کی خاطر ایک سپر پاور کے دبائو کو رد کر دیا اور اللہ پر بھروسے کو مقدم رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جدوجہد کامیاب رہی جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ جرائم پیشہ افراد کے ایک ایسے گروپ میں تبدیل ہو گئے جو جہاد کی اصطلاح کی مٹی پلید کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں اصلی جہاد ہماری فوج کر رہی ہے جو تحریک طالبان پاکستان پر حملہ آور ہے جبکہ افغان طالبان کے ساتھ کافی بہتر تعلقات رکھتی ہے۔ جس طرح افغان طالبان کی حملہ آور غیر ملکی افواج کے خلاف جدوجہد جہاد کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح ہماری مسلح افواج کی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی جہاد کے زمرے میں آتی ہے۔اور اب جبکہ ہماری فوج جہاد میں مصروف ہے تو قوم پر لازم آتا ہے کہ اس جہاد کے لیے مسلح افواج کو زیادہ سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرے۔ حکومت ہماری قوم کی نمائندہ ہے مگر اس کی مالی استعداد محدود ہے اور ساتھ ہی آج کل کے ہمارے حکمران بظاہر اپنے دلوں میں فوج کے خلاف کینہ رکھتے ہیں یا کم از کم دکھائی ایسا ہی دیتا ہے۔ہمارے دین میں جہاد کے لیے وسائل فراہم کرنا یا انفاق کرنا قوم کے تمام ان افراد پر فرض ہے جن کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مالی وسائل ہوں۔
ہمارے ہاں آج تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عام لوگ جہاد کے لیے چندے دیتے رہے مگر وہ جن تنظیموں کو دیتے رہے وہ جہاد کے بجائے زیادہ تر ملک دشمن کارروائیاں کرتی رہیں۔ چنانچہ ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں کہ عام پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر چندہ دینا ہی بند کر دیا؛ حالانکہ حق بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ مسلح افواج کو جہاد کے لیے رقوم فراہم کر کے اپنے شریک جہاد ہونے کا دینی فریضہ ادا کریں۔ہماری فوج کو مستقل ایک جہاد فنڈ کا اکائونٹ کھولنا چاہیے جس میں رقوم ملک کے تمام بنکوں کی تمام برانچوں میں بآسانی جمع کرانا ممکن ہو۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے مذہبی قائدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کوان کے اس فریضے کی مسلسل یاد دہانی کراتے رہیں کہ انفاق کے حکم میں غریبوں‘ مسکینوں اور یتیموں کی مدد کرنا شامل ہے تو اسی حکم میں جہاد کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ علما یہ بھی واضح کریں کہ انتہا پسند تنظیموں نے جہاد کے نام پر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جو مساجد الگ بنا رکھی ہیں ان کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ تنظیمیں ہر لحاظ سے دین کی دشمن ہیں۔
مزید برآں‘ ہمارے ملک میں جو مخیر حضرات بڑے بڑے دستر خوان چلاتے ہیں‘ سماجی اداروں کی مدد کرتے ہیں‘ ان کو بھی یہ فرض یاد دلانا چاہیے کہ ملک کی حفاظت کے لیے جو جہاد جاری ہے اس میں بھی ان کامالی حصہ ہونا چاہیے۔ قرون اولیٰ کی ہماری تاریخ اور خاص طور پر حضورؐ کے زمانے کے واقعات اس امر کے شاہد ہیں کہ جب جہاد کے لیے مالی مدد کی بات کی گئی تو صحابہ کرامؓ نے کھل کر انفاق فی سبیل اللہ میں حصہ لیا۔ ہمارے اکابر صحابہ میں سے بعض نے اپنی آدھی دولت اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تو اپنی کل پونجی ہی نذر کر دی تھی۔
حقیقی بات یہ ہے کہ ہماری قوم کا مجموعی فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہماری اسلامی فوج جو جہاد کر رہی ہے‘ اس کی محض زبانی کلامی مدد پر اکتفا نہ کرے بلکہ جو کچھ بھی ممکن ہو اس ضمن میں عملی طورپرکرے۔
حکومت کہتی تو ہے کہ وہ دفاعی اداروں کے تمام اخراجات پورے کرے گی مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ جو لوگ شمالی وزیرستان سے گھر بار چھوڑ کر آئے تھے‘ ان کو واپس اپنے گھروں میں بھیجنے کے لیے رقوم کی ضرورت ہے۔ یہ بھی جہاد ہی کا حصہ ہے۔ دین کا علم کم ہونے کی وجہ سے عام لوگ صرف قتال ہی کو جہاد سمجھتے ہیں؛ حالانکہ قتال تو جہاد کا ایک حصہ ہے‘ جہادمیں بہت کچھ شامل ہے۔ میں تو شہیدوں کے ورثا کی دیکھ بھال کو بھی جہاد ہی کا حصہ سمجھتا ہوں۔
عوام کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے سیاستدان جو حکمران بھی ہیں‘ بس بیانات کی حد تک ملک و قوم کی بھلائی کی بات کرتے ہیں۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ ان سب کے پیش نظر اپنی‘ اپنے اہل خاندان کی بھلائی ہوتی ہے اور یہ قومی بھلائی محض ان اقدامات کو کہتے ہیں جو آئندہ انتخابات میں ان کی کامیابی کے ضامن ہوں۔
لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ فوج کا ادارہ اپنا ایک جہاد فنڈ قائم کرے۔ ہمارے دانشور‘ مذہبی اور معاشرتی ناقدین عوام کو بتائیں کہ پاک فوج کے جہاد فنڈ میں رقوم جمع کروانا نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ ان کو جہاد میں شریک ہونے کا نادر موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس جہاد فنڈ میں جو لوگ رقوم جمع کروائیں گے یہ ان کا احسان نہیں ہو گا بلکہ یہ فوج کے ادارے کا ان پر احسان ہو گا کہ عوام کو ایک ایسے نیک کام میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا ہے جس کا آخرت میں بھی اجر عظیم ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں