1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران میں جو ملی نغمے اور جنگی ترانے تخلیق ہوئے وہ اپنی جگہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس دور میں جو نغمے انتہائی مقبول ہوئے ان میں سے بعض کے بارے میں انتہائی دلچسپ حقائق ہیں جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسعود رانا اور شوکت علی کے ہمراہ کورس کی کئی آوازوں کا گایا ہوا یہ جنگی ترانہ ''ساتھیو، مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ خاص طورپر 65ء کی جنگ کے تناظر میں ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا۔
یہ دراصل اس دور میں ایک فلم بنی تھی۔ اس کا نام تھا ''مجاہد‘‘۔ اس فلم کے لئے یہ گیت حمایت علی شاعر نے لکھا تھا اور خلیل احمد نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ فلم غالباً ستمبر 65ء کے پہلے ہفتے میں ریلیز ہوئی تھی۔ فلم تو چلی نہیں لیکن یہ ترانہ اتنا چلا کہ آج بھی فضاؤں میں گونج رہا ہے۔ جس وقت یہ فلم بننا شروع ہوئی تھی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی اور یہ جنگی ترانہ اس جنگ میں قوم کی آواز بن جائے گا۔
جنگی ترانوں اور ملی نغموں کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کا 65ء کی جنگ میں بہت اہم کردار تھا۔ ریڈیو پاکستان لاہور پر نغمے تو زیادہ تر جنگ ستمبر کے دوران ہی میں ریکارڈ اور نشر ہوئے اور ان میں نور جہاں کی آواز میں صوفی غلام مصطفی تبسم سمیت کئی اہم شعراء کے ملی نغمے بہت مقبول ہوئے لیکن ریڈیو پاکستان کراچی اور وہاں موجود ریڈیو کی ٹرانسکرپشن (Transcription) سروس کا کردار بھی بہت اہم تھا۔
ٹرانسکرپشن سروس کے ڈائریکٹر ان دنوں سلیم گیلانی صاحب ہوتے تھے جو بعدازاں ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ جنگ ستمبر سے پہلے رن آف کچھ میں بھارتی اور پاکستانی افواج کا مقابلہ ہو چکا تھا اور پھر کشمیر میں بھی آپریشن جبرالٹر کی تیاری تھی۔
آپریشن جبرالٹر ہی بعدازاں جنگ ستمبر کا سبب بنا تھا۔ اس آپریشن کے تحت بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں کارروائی کی گئی تھی جس پر اس دور کے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے کہا تھا کہ اس کے جواب میں وہ اپنی پسند کا محاذ کھولیں گے۔ چنانچہ چھ ستمبر کو لاہور پر حملہ ہوگیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی کے ماحول میں پیش بندی کے طور پر ریڈیو پاکستان
کی ٹرانسکرپشن سروس پہلے ہی جنگی ترانے ریکارڈ کر رہی تھی۔ انہی میں ایک معروف جنگی ترانہ شامل تھا جو انتہائی مقبول ہوا اور بھارت کو اس قدر برا لگا کہ جنگ کے دنوں میں انہوں نے احتجاج کرکے اس نغمے کا ریڈیو سے نشر ہونا بند کروایا تھا۔ اس جنگی ترانے کے بول تھے ''مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے۔ جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی‘‘ یعنی مہاراج کہہ کر ہندوئوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جنگ تو تلوار کا کھیل ہوتا ہے، یہ عورتوں کے کھیلنے کا کھیل نہیں ہوتا۔ اس پنجابی جنگی نغمے کے بول واقعتاً ایسے زہریلے تھے کہ ہمارے حکام نے بھی بھارت کا اس نغمے کے خلاف احتجاج جنگ کے دنوں میں قبول کرتے ہوئے یہ نغمہ نشر کرنا بند کردیا تھا۔ تاہم جس قدر یہ نغمہ نشر ہو چکا تھا اس کا اثر یہ تھا کہ ہر شخص کی زبان پر تھا۔ یہ نغمہ سیالکوٹ کے ایک شاعر رشید انور نے لکھا تھا۔ رشید انور ہومیو پیتھ ڈاکٹر تھے اور اپنے کلینک میں خالی اوقات میں ریڈیو کے مختلف سٹیشن سنتے رہتے تھے۔ انہوں نے جنگ ستمبر سے کچھ عرصہ پہلے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کافی کشیدگی موجود تھی آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر ہونے والے ایک پنجابی مشاعرے میں کسی بھارتی شاعر کا کلام سنا جس میں وہ ٹشاعر کہہ رہا تھا کہ عدند بھن دیو پاکستانیاں دے یعنی پاکستانیوں کے دانت توڑ دو۔ لمبی نظم تھی جس میں بھارتیوں کو پاکستان کے خلاف اکسایا گیا تھا‘ اس نظم کے جواب میں ڈاکٹر رشید انور نے یہ جنگی ترانہ تخلیق کیا جس میں کہا گیا تھا کہ دہلی میں بیٹھ کر کہتے ہو کہ پاکستانیوں کے دانت توڑ دو۔ مہاراج جنگ کی بات کرتے ہو‘ جنگ تو تلوار کا کھیل ہے عورتوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ جنگی ترانہ ڈاکٹر رشید انور نے سلیم گیلانی تک پہنچایا اور پھر کراچی میں یہ تاج ملتانی اور کچھ کورس کی آوازوں میں ریکارڈ ہوا تھا۔
جنگ ستمبر ہی کے دوران میں ایک اور گیت جس پر بھارت کے احتجاج کے بعد یہاں پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس کے بول تھے۔ لالہ جی۔ جان دیو۔ لڑنا کیہ جانو تسی مرلی وجاون والے۔ گل تہاڈے وس دی نئیں یعنی لالہ جی جانے دو تم بانسری بجانے والے لڑنا کیا جانو‘ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ جن لوگوں کو 65ء کی جنگ کا زمانہ یاد ہوگا لازماً ان کے حافظے میں یہ جنگی نغمے محفوظ ہوں گے۔ یہ تو اب ہر کوئی جانتا ہے کہ 65ء کی جنگ نے ہماری قوم میں ایک عجیب و غریب جذبہ پیدا کردیا تھا۔ شاعروں کا یہ حال تھا کہ سوائے ملی نغموں اور جنگی ترانوں کے ان کو اور کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔ جو باقاعدہ شاعر نہیں تھے وہ بھی ملی جذبات سے بھرپور نظمیں لکھ رہے تھے۔ مجھے یاد ہے لاہور میں معروف دانشور صفدر میر نے جن کا شاعری سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا اس دور میں ''علی حیدر‘‘ کے عنوان سے ایک آزاد سی نظم لکھی جو بہت مقبول ہوئی‘ اس قدر جوش سے وہ خود اپنی نظم پڑھتے تھے کہ سننے والوں کے ملی جذبات بھڑک اٹھتے تھے۔
چھ ستمبر کو بھارت کی افواج نے لاہور پر حملہ کیا تھا جو ناکام رہا تھا حالانکہ بھارتیوں نے بی بی سی جیسے ادارے کو گمراہ کرتے ہوئے ان کو ایک ایسی فلم فراہم کردی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ لاہور پر بھارتی افواج کا قبضہ ہو چکا ہے اور لاہور کی سڑکوں پر بھارتی فوجی پھر رہے ہیں۔
بھارتیوں کو چونکہ یقین کامل تھا کہ لاہور شہر پر تو وہ لازمی قبضہ کر لیں گے لہٰذا انہوں نے جعلی فلم بنوا کر بی بی سی تک اس انداز میں پہنچائی تھی کہ اتنے موقر ادارے کو بھی اس امر پر یقین ہوگیا کہ لاہور بھارت کے قبضے میں جا چکا ہے۔ لیکن کیا کہنے ہماری افواج کے‘ بھارت کو بی آر بی نہر پار نہ کرنے دی۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر نے لاہور کے محاذ پر ہی اپنی جان دیکر اس شہر کی حفاظت کی تھی۔ بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارتی افواج کو لاہور کے محاذ پر ذلت آمیز ناکامی ہوئی تھی۔ اس دور میں ہماری ایک رانی توپ ہوتی تھی۔ پتہ نہیں کتنی ایسی توپیں تھیں۔ یہ مسلسل بھارتی افواج پر گولے پھینکتی تھیں اور پورا شہر ان توپوں کی آواز سنتا تھا۔ بی بی سی کو بھارت کی فراہم کردہ جعلی فلم پر بہرحال بعدازاں باقاعدہ معذرت نشر کرنا پڑی۔ تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ بی بی سی نے اپنے کسی نشریے پر معافی مانگی ہو۔
بہرحال لاہور کا دفاع ہوا تو ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ اس موضوع پر بھی کوئی ملی نغمہ ہونا چاہئے۔ کراچی میں سلیم گیلانی صاحب نے معروف شاعر رئیس امروہوی کو فون کرکے درخواست کی‘ موصوف انتہائی زود گو شاعر تھے۔ ایک روزنامے میں ان کا طبع زاد قطعہ روزانہ شائع ہوتا تھا۔ غالباً اخبارات میں روزانہ قطعہ لکھنے کی روایت کے موصوف ہی بانی تھے۔ رئیس امروہوی نے سلیم گیلانی کو کہا کہ تھوڑی دیر بعد مجھے فون کیجئے اور کاغذ اور قلم ہاتھ میں رکھیے۔ گیلانی صاحب نے فون کیا اور رئیس امروہوی نے فون پر ہی ان کو یہ ملی نغمہ لکھوا دیا۔
خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
یہ ملی نغمہ بھی اس دور میں بہت مقبول ہوا تھا۔ پھر قصور کا شہر بھی سرحد پر واقع ہے۔ وہاں بھی بھارتی افواج کے خلاف ہماری فوج کو کامیابی ملی تھی۔ اس پس منظر میں نور جہاں کا یہ گیت مقبول ہوا۔ ''میرا سوہنا شہر قصور نی۔ ہویا دنیا وچ مشہور نی‘‘۔ یعنی میرا خوبصورت شہر قصور دنیا بھر میں مشہور ہوا ہے۔ یہ نغمہ بھی غالباً صوفی غلام مصطفی تبسم ہی نے تحریر کیا تھا لیکن ایک نغمہ جس کو شعر و ادب کے ناقدوں نے بہترین ادبی تخلیق قرار دیا وہ تو یقینا صوفی صاحب ہی کا تحریر کردہ تھا... ؎
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
یہ ملی گیت آج بھی انتہائی مقبول ہے اور 65ء کی جنگ کے دوران جب یہ گیت نور جہاں کی آواز میں ریڈیو سے نشر ہوتا تھا تو اس کو سن کر میں نے کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ آج بھی اپنے فوجیوں کی قربانیوں کو ذہن میں لائیں اور پھر یہ گیت سنیں، آپ اپنے آنسو روک نہیں سکیں گے۔