"ARC" (space) message & send to 7575

اللہ ‘ آرمی اور امریکہ

ہمارے ہاں یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ تین A ہیں جو پاکستان میں بڑے فیصلے کے پیچھے ہوتے ہیں۔ تین اے سے مراد اللہ‘ آرمی اور امریکہ لی جاتی ہے۔ سننے میں تو یہ بات اپنے اندر بہت کشش رکھتی ہے مگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل بے بنیاد ہے۔ جہاں تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے تو اس میںکوئی کلام نہیں کہ پروردگار عالم کی ذات نہ صرف ہر بڑے فیصلے کے پیچھے ہوتی ہے بلکہ کائنات میںکوئی چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
امریکہ کے بارے میں ہمارا جو تاثر ہے کہ وائٹ ہائوس کی مرضی کے بغیر پاکستان میں کوئی برسر اقتدار نہیں آ سکتا یا ملک میں کوئی بڑا منصب بھی کسی کو دینے کا فیصلہ امریکی حکومت کرتی ہے‘ اس تاثر کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ اصل میں اس تاثر کی وجہ یہ ہے کہ امریکی‘ خارجہ امور میں ایسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہیں جس کے تحت وہ اکثر شکست میں سے بھی اپنے لیے کوئی چھوٹی موٹی فتح دریافت کر لیتے ہیں اور پھر اپنے میڈیا کو اس کی تشہیر پر لگا دیتے ہیں۔ اس پالیسی کے نتیجے میں عمومی تاثر یہی ابھرتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، امریکہ کرا رہا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ میں نے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا، جو ایک ابدی حقیقت ہے۔ امریکہ بھلے سپر پاور ہو مگر ارادے اس کے بھی ٹوٹتے رہتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں ہماری حکومت کی کوئی پالیسی فیل ہو تی ہے(جس کا مظاہرہ دن رات ہوتا رہتا ہے) تو ہمارے دانشور، ہمارا میڈیا، ہماری حزب مخالف سب لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور عوام کے سامنے مایوسی کی ایک ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے کہ پاکستان کی قسمت میں بس ناکامیاں ہی لکھی ہیں۔دوسری طرف جب امریکی حکومت کی کوئی پالیسی فیل ہوتی ہے(اس کا بھی مظاہرہ اکثر ہوتا رہتا ہے) تو وہاں کے دانشور‘ تھنک ٹینکس، میڈیا ، حکومت اور حزب اختلاف کے سیاستدان ‘ سب سے پہلے ناکامی میں سے ایسے پہلو تلاش کرتے ہیں جن سے کسی حد تک امریکی مفادات کو بڑھاوا ملتا ہو۔ حکومت پر تنقید بھی ہوتی ہے مگر ساتھ ہی یہ عمل بھی جاری رہتا ہے اور آخر کار یہ تاثر غالب آ جاتا ہے کہ جوکچھ ہوا وہ امریکی پالیسی کے مطابق ہی ہوا۔ اگر آپ نصف صدی پیچھے چلے جائیں تو امریکہ میں بھی پالیسیوں کی ناکامیوں پر اسی طرح کا رونا دھونا ہوتا تھا جیسا ہمارے ہاں آج کل ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال ویت نام میں امریکیوں کی شکست ہے۔ اس شکست کے بعد سے امریکہ نے یہ پالیسی اختیارکی جس کا میں نے ذکرکیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو امریکی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا، لیکن وہ کہتے ہیں، جب کوئی واقعہ ہو جائے تو اس میں سے اپنے مفادکے پہلو چُن کر ان کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کرانے سے اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا ہے۔ ویت نام کی جنگ میں ناکامی کے بعد ایران میں بھی امریکہ کی پالیسی بری طرح فیل ہوئی، مگر مجال ہے انہوں نے اس کو شکست مانا ہو۔ امریکی سفارت کار طویل عرصہ ایران میں تقریباً قید رہے، مگر صدر ریگن نے ان تمام معاملات کو دنیا کے سامنے ایک مختلف رنگ میں پیش کر کے ساری توجہ افغان جہاد کی طرف مبذول کر دی۔
ایران پالیسی کا حشر نشر ہونے کے بعد امریکیوں نے مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک یعنی ایران اور عراق کو کمزورکرنے کے اپنے طویل المیعاد مقصد کے لیے صدام حسین سے ایران پر حملہ کروا دیا۔ برسوں یہ جنگ جاری رہی اور امریکی اس کو اپنی ایک کامیابی کے طور پر پیش کرتے رہے۔ اسی طرح عراق اور افغانستان کے حوالے سے جو ناکامیاں امریکی حکومت کے حصے میں آتی رہیں، آج تک وہ ان میں سے اپنی کامیابیاں ہی دریافت کرتے آ رہے ہیں۔ میری نظر میں یہ ہے وہ صورت حال جس کی اصل کو ہمارے ہاں سمجھا نہیں جاتا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے وہ امریکہ کروا رہا ہے، توکوئی نہیں سوچتا کہ ایسا کہنا تو ویسے بھی کفر ہے۔ بھلا اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر کائنات میں کچھ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ 
اب کچھ ذکر اس حوالے سے کہ ہماری آرمی کی مرضی ہر بڑے ملکی فیصلے کے پیچھے ہوتی ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے، اگر ہماری مسلح افواج محسوس کریں کہ کوئی اقدام ہمارے قومی مفادات کے خلاف جا رہا ہے تو وہ اس کی نشاندہی کرتی ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو دبائو ڈال کر اسے رکوا بھی دیتی ہیں۔ یہ ایسا عمل ہے جو انتہائی ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں بھی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے مثال سب سے زیادہ امریکہ ہی کی موزوں ہے، وہاں بھی وائٹ ہائوس کے مقابلے میں اگر امریکی محکمہ دفاع یعنی پینٹا گان اور امریکی سی آئی اے اڑ جائیں توامریکی صدر بے بس ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس قسم کی باتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے کہ تینA ہمارے سب فیصلے کرتے ہیں۔ بالکل نہیں۔ جہاں تک کائنات میں فیصلوں کا تعلق ہے وہ ایک ہی A کرتا ہے اور وہ اللہ ہے، باقی سب طاقتیں اس کی مطیع اور فرمانبردار ہیں۔
ہمیں امریکہ کی اس حکمت عملی سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جہاں حکمت عملی ناکام ہو جائے تو ہم بھی اس میں سے اپنی کوئی کامیابی دریافت کر کے یہ تاثر دیں کہ ہمارے مفادات آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاستدان ‘ میڈیا، دانشور اور عوام اپنے ملک کے بارے میں مسلسل مایوسی پھیلاتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ بھارت کافی حد تک امریکہ سے یہ کام سیکھ چکا ہے۔ پالیسیاں بھارت کی بھی اکثر فیل ہوتی ہیں مگر وہ امریکہ کی طرح ناکام پالیسیوں میں سے بھی کامیابی کے کچھ پہلو دریافت کر کے اپنے میڈیا کو اس کی تشہیر پر لگا دیتا ہے۔ تھوڑی بہت تنقید تو ہر جگہ چلتی رہتی ہے، امریکہ میں بھی اور بھارت میں بھی، مگر بڑی ناکامیوں کو یہ ملک دبا کر آگے بڑھنا سیکھ چکے ہیں۔
یہ تو بھول جائیں کہ اس دنیا میں سب کچھ ہماری مرضی و منشا کے مطابق ہوگا۔ جو کچھ ہوگا اللہ کی مرضی اور اس کے ابدی قوانین کے مطابق ہوگا۔ لیکن انسان چونکہ ایسی مخلوق ہے جسے پروردگار نے اپنے ارادوں پر عمل کرنے کی ایک محدود طاقت دے رکھی ہے، اگر ہم اس طاقت کو حالات کے مطابق، اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال میں لاتے رہیں تو ہمارے ہاں جو عمومی مایوسی پائی جاتی ہے وہ ختم ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں