پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ میں فضل محمود کا نام ہمیشہ کے لیے سنہرے حروف میں لکھا ہوا ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ کرکٹ پر بہت کم گفتگو کیا کرتے تھے۔ جب وہ لاہور میں ڈی آئی جی ٹریفک کے عہدے پر فائز تھے تو ریڈیو لاہور بھی تشریف لایا کرتے۔ زیادہ تر گفتگو ان کی مذہب سے متعلق ہوتی اور وہ پاکستانیوں کے کردار کی کمزوری پر بہت نالاں رہتے تھے۔ ایک روز کہنے لگے: ہمارے لوگوں کو منہ در منہ جھوٹ بولنے میں کوئی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے وہ ایک واقعہ بھی سناتے تھے۔ یہ واقعہ حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر حاضری کے وقت ان کی جیب کاٹنے کی ایک کوشش سے متعلق تھا۔ کہنے لگے: ''میں فاتحہ پڑھ رہا تھا کہ ایک ہاتھ مجھے اپنی جیب میں داخل ہوتا محسوس ہوا۔ میں نے اس ہاتھ کو کلائی سے پکڑ لیا‘ جس جیب کترے کا ہاتھ تھا وہ دوسری جانب میری بغل سے جھانک کر کہہ رہا تھا''اللہ دی قسمیں میں نہیں ہیگا‘‘ یعنی اللہ کی قسم میں نہیں ہوں‘ گویا جو ہاتھ میں نے پکڑا ہوا ہے وہ کسی اور کا ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: اچھا اگر تم نہیں ہو تو جائو‘‘ اب فضل محمود نے کسی کا ہاتھ زور سے پکڑا ہو اور وہ اس کو چھڑا لے‘ کوئی مذاق تو نہیں ہے۔ وہ جیب کترا کچھ دیر تک زور لگاتا رہا۔ آخر تھک ہار کر معافیاں مانگنے لگا۔
یہ واقعہ سنا کر وہ کہتے تھے کہ کردار کا اس قدر انحطاط ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
میرا اس واقعے کو کالم میں درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو باور کرائوں کہ نندی پور بجلی گھر کے معاملے میں حکمرانوں کی صورتحال بھی اس جیب کترے کی سی ہو چکی ہے‘ جس کی کلائی فضل محمود کی مضبوط گرفت میں تھی۔ نندی پور کے معاملے میں حکمرانوں کا عوام کی جیب کترنے کے لیے جو ہاتھ آگے بڑھا تھا‘ وہ ان کی بدقسمتی سے عوام ہی کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں آ چکا ہے۔ اب جتنی مرضی تاویلیں پیش ہوں۔ نقشہ وہی رہے گا کہ جیب کترا فضل محمود سے کہے جا رہا ہے کہ اللہ کی قسم میں نہیں ہوں۔ اور فضل محمود اس سے کہہ رہے ہیں کہ اچھا اگر تم نہیں ہو تو جائو۔
اب اس سکینڈل سے بچ کر حکمران جائیں تو کہاں جائیں؟
کیا لوگ بھول سکتے ہیں کہ حکمرانوں نے برسراقتدار آتے ہی نندی پور کے بجلی گھر کے حوالے سے کتنی امیدیں دلائی تھیں۔ اس وقت محسوس یہ ہو رہا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے محض پنجاب دشمنی میں اس پروجیکٹ کو روکا ہوا تھا اور اب چونکہ پی پی کی حکومت ختم ہوگئی ہے لہٰذا ہفتوں نہیں تو مہینوں میں 495 میگاواٹ بجلی ہمارے قومی گرڈ میں آ جائے گی۔
اس کے بعد اسی بجلی گھر کے حوالے سے چین کے دورے ہوئے۔ ان دوروں میں ہمارے ملک کے بعض صحافی بھی مسلم لیگ ن کے قائدین کے ساتھ جاتے تھے اور بعض تو اپنے محکمے کے خرچے پر ساتھ جاتے تھے‘ مگر افسوس صد افسوس کہ کسی کو بھی حکام نے اس بات کی بھنک تک نہ پڑنے دی کہ یہ منصوبہ تو محض ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے اور یہ قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے صحافی ہماری نسبت اس کام میں تیز ہیں اور وہ اپنی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو گڑبڑ کرنے سے مسلسل روکے رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو جب مال کھایا پیا جاتا ہے اور قومی خزانے کا بھرکس نکل جاتا ہے تو پھر تحقیقاتی صحافت انگڑائیاں لیتی ہے۔ اس معاملے میں چند صحافیوں کو استثنائی حیثیت حاصل ہے‘ وگرنہ حکومت کے کاریگروں کو واردات کرنے سے پہلے پکڑنے میں ہمارا میڈیا اکثر ناکام رہتا ہے۔
اب نندی پور پروجیکٹ کے معاملے میں ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچایا جا چکا ہے اور آئندہ جتنا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے‘ اس سے پوری قوم واقف ہو چکی ہے‘ مگر ہمارے حکمران‘ فضل محمود والے واقعے کے جیب کترے کی مانند‘ کچھ بھی مان نہیں دے رہے۔
جب نندی پور پاور پروجیکٹ کا افتتاح ہوا تھا‘ اور ایک طویل تقریب براہ راست جو میڈیا پر نشر ہوئی تھی‘ اس کو ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ بار بار دیکھیں اور جو زندگی کے مختلف شعبوں کی اہم شخصیات اس تقریب میں صوفوں پر براجمان تھیں ان کو بھی اس تقریب کی ریکارڈنگ بار بار دیکھ کر اس امر کا احساس کرنا چاہیے کہ ان کو منہ در منہ جھوٹ بول کر کتنا بیوقوف بنایا گیا تھا۔
اگر کوئی کہے کہ اس منصوبے کی کمزوریوں سے حکمران اس وقت آگاہ نہیں تھے‘ تو یہ ماننے والی بات نہیں ہے۔ اتنا وسیع تجربہ ہے حکمرانی کا۔ خاص طور پر میاں شہبازشریف کو تو وزارتوں کے سیکرٹریز بریفنگ دیتے وقت ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھتے ہیں کہ میاں صاحب کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
نندی پور پاور پروجیکٹ تو محض ایک کارنامہ ہے۔
جس طرف جائیے زخموں کے لگے ہیں بازار
اتنی ارزاں تو نہ تھی درد کی دولت پہلے
عوام تڑپ رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور بعض بین الاقوامی ایجنسیوں کی طرف سے ہماری معیشت میں کچھ بہتری کی خبریں عوام کے دکھ درد کو کم نہیں کر رہیں اور اسحاق ڈار صاحب کی قیادت میں معیشت کے میدان میں جو طرز حکمرانی چل رہی ہے‘ اس سے عوام مزید پس جائیں گے۔ میثاق جمہوریت والی دونوں جماعتوں نے اپنے میثاق کی غرض و غایت پاکستانیوں پر پوری طرح واضح کر دی ہے۔ اب لوگ جب ان سے بدظنی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی طرف سے آئین پاکستان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ آئین ان لوگوں کے لیے تو کھلونا ہی ہے‘ جہاں ضرورت ہوتی ہے اس کو مقدس ترین دستاویز قرار دے کر کام نکالا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئین اللہ کے احکامات سے بھی زیادہ مقدس ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے قرآن پاک میں دیے گئے احکامات کو بالائے طاق رکھا ہوا جن میں کہا گیا ہے کہ حق کی گواہی دو بھلے وہ تمہارے اپنے خلاف جاتی ہو‘ اور اس طرح کے بہت سے احکامات ہیں جن کو ہمارے حکمران قبول کرنا Afford ہی نہیں کر سکتے۔ قرآنی احکامات کی روشنی میں ملک کو درست کر لیا جائے تو اس میں مجھے تو کوئی قباحت دکھائی نہیں دیتی۔
اس وقت طرز حکمرانی‘ جمہوریت پر مبنی ہو یا نہ ہو‘ یہ پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دن رات کام کر رہے ہیں اور ان کی محنت جمہوریت کے نام پر مسلسل لوٹی جا رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی محنت کا پھل ان تک پہنچے‘ بھلے کسی طرح سے پہنچے۔ لٹیروں سے اگر ہم نے اپنی معیشت بچا لی تو پھر زندگی کے دیگر شعبوں میں ہمارے مسائل کم ہونا شروع ہو جائیں گے‘ ہماری خارجہ حکمت عملی کو مضبوط بنیاد فراہم ہو جائے گی اور سب سے بڑی بات عام آدمی کی زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ ہمارا مذہب محض شورائی نظام پر زور دیتا ہے جو کہ اس نام نہاد جمہوریت کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔