"ARC" (space) message & send to 7575

سخت گیر مگر ایماندار حکمران

امریکی سی آئی اے کے ایک سابق عہدیدار Bruce Riedelنے اپنی تازہ تصنیف میں انکشاف کیا ہے کہ 1962ء میں عوامی جمہوریہ چین کے ہمراہ پاکستان بھی بھارت پر حملہ کرنے والا تھا کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے مداخلت کر کے اُسے روک دیا۔ اس تصنیف میں مزید لکھا ہے کہ صدر جنرل ایوب خاں نے بھارت پر حملہ نہ کرنے کے بدلے کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کامطالبہ کیا تھا ۔(جسے امریکی صدر نے مان لیا تھا)ظاہر ہے کہ جنرل ایوب کا یہ مطالبہ صدر کینیڈی نے پورا نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ سبھی جانتے ہیں۔ لیکن اس بات سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ صدر ایوب سیاست میں چالاک نہیں تھے وگرنہ اگراُن کی جگہ کوئی چالاک حکمران ہوتا تو اس موقع سے کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور اٹھا لیتا۔
میں نے جب ریڈیو پاکستان میں ملازمت شروع کی تو ایوب خاں کا دور حکومت تھا۔ ریڈیو سے ایوب خاں کی بہت گہری وابستگی تھی۔ وہ ریڈیو پر ہر ماہ کی پہلی تاریخ کوقوم سے خطاب کیا کرتے اور اس ذریعے کو قوم سے رابطے کا اہم وسیلہ سمجھتے تھے۔ ریڈیو کی ایک ٹیم ہمیشہ صدر ایوب کے لیے اس ریڈیو سٹیشن پر ڈیوٹی پر ہوتی تھی جس شہر میںاُن کا قیام ہوتا۔ اس طرح ہمارے محکمے کے کچھ لوگوں کو ایوب خاں سے متعلق کچھ سچی جھوٹی باتیں بھی معلوم ہوتی رہتی تھیں۔
بات ہو رہی تھی صدر ایوب کی سادہ طبیعت کی۔ اس حوالے سے ہمارے ریڈیو سٹیشن پر یہ قصہ مشہور تھا کہ ایک روز اسلام آباد میں صدر ایوب اپنے سیکرٹری الطاف گوہر کے ہمراہ گاڑی میں جا رہے تھے کہ انہوں نے سڑک کے اردگرد مکانات پرجگہ جگہ To-Letکے بورڈ دیکھے۔ اسلام آباد نیا شہر آباد ہو رہا تھا۔ لوگوں نے گھر بنا لیے تھے مگر کرایہ دار نہیںملتے تھے۔ سرکاری ملازم ان گھروں میں رہتے تھے جو حکومت نے ان کے لیے بنوا رکھے تھے ۔ لہٰذا بہتوں کو کرائے داروں کی تلاش تھی۔ اب ایوب خاں نے چلتی گاڑی میں To-Letکے بورڈوں کو سمجھا کہ وہ Toiletکے بورڈ ہیں لہٰذا انہوں نے ہلکی سی خفگی کے ساتھ الطاف گوہر سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ فوری طور پر جگہ جگہ لگے یہ Toiletکے بورڈ ہٹا دیے جائیں۔اب الطاف گوہر یہ کہہ کر صدر کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے تھے کہ اصل میں یہ To-Letکے بورڈز ہیں لہٰذا انہوں نے اگلے دن سی ڈی اے کے چیئرمین کو کہا کہ بھلے یہ تمام مکان خود آپ کا محکمہ کرائے پر لے لے‘ یہ بورڈ ہٹوا دو۔ اگلے دن ہی سی ڈی اے والوں نے یہ تمام بورڈ ہٹوا دیے۔
ایوب خاں کی شخصیت چونکہ بہت بارعب تھی اس لیے اکثر لوگ ان کی موجودگی میں سہمے ہی رہتے ۔ جس زمانے میں وہ لندن سے غالباً کسی بیماری کے علاج کے بعد واپس پاکستان آئے تو کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک اخبار نویس بار بار ان سے کوئی ایسا سوال کر رہا تھا جس کا وہ جواب نہیں دینا چاہتے تھے۔ آخر جب صدر صاحب زچ ہو گئے تو اپنے فوجی انداز میں Shoutکیا۔ یہ تو معلوم نہ ہوا کہ انہوں نے کیا کہا مگر سب صحافی‘کیمرہ مین وغیرہ دہشت زدہ ہو کر وہاں سے ایسے بھاگے کہ لائونج میں جا دم لیا۔ ایوب خاں وہاں سے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ ہمارے سینئر ساتھی سعید نقشبندی مرحوم اس وقت ایوب خان کی گفتگو ریکارڈ کر رہے تھے اور وہ بھی ایوب خاں کے Shoutکرنے کے بعد بھاگ کر لائونج میں آ گئے تھے۔ انہوں نے بعدازاں جب ریکارڈنگ سنی کہ معلوم ہو کہ آخر ایوب خان نے کہا کیا تھا تو معلوم ہوا کہ اُنہوں نے فوجی انداز میں اس اخبار نویس سے کہا تھا۔You Keep away and let others Speak(یعنی تم پیچھے ہٹو اور دوسروں کوبولنے دو)۔
اب آپ غور کریں تو یہ کوئی ایسی بات تو نہیں تھی جس کو سن کر سارے اخبار نویس‘ کیمرہ مین وغیرہ وہاں سے بھاگ جاتے مگر اصل میں ان کا رعب اور پھر فوجی لہجے میں Shoutکرنے کا انداز ایسا تھا کہ سب نے وہاں سے ہٹ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
پاکستان کو اتنا بارعب حکمران بعد میں نصیب نہیں ہوا۔ اور ترقی بھی اسی حکمران کے دور میں ہوئی۔وہ ایک سخت گیرمگر ایماندار حکمران تھا ۔ ایوب خان کا آخری دور میں نے اپنی ریڈیو کی ملازمت کی ابتداء میں دیکھا تھا‘ اس کے بعد یحییٰ خان کو بھگتا۔ بہت فرق تھا یحییٰ خان میں اور ایوب خان میں۔ ایوب خان اپنی سادہ طبیعت کے باوجود بہت Composed(مطمئن ‘ پرسکون)رہتے تھے جبکہ یحییٰ خان
تو محض مسخرے تھے۔ کم ہی وہ کسی تقریب میں وقت پر پہنچتے تھے۔ کراچی میں ان کے دور میں مسلم وزرائے خارجہ کی بین الاقوامی کانفرنس ہوئی‘ سٹیٹ بنک کے ہال میں تقریب تھی۔ وزرائے خارجہ ہال میں منتظر تھے مگر یحییٰ خان کا کچھ پتہ نہیںتھا۔ کافی دیر کے بعد آئے تو لڑ کھڑا رہے تھے۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریر بھی اسی حالت میں پڑھی۔ ہم کانفرنس کو براہ راست نشر کر رہے تھے۔ یحییٰ خان تقریر پڑھنے کے ساتھ پتہ نہیں مسودے کا کیا حال کر رہے تھے کہ کاغذوں کی کھڑکھڑاہٹ نشریے میں خلل ڈال رہی تھی۔ ہمارے ریجنل انجینئر بہت ناراض ہو رہے تھے۔ انہوں نے وہاں موجود ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ سے کہا''شاہ جی کاغذوں کی بہت آواز آ رہی ہے‘‘ طاہر شاہ صاحب بھی ایک عجیب مزاج کے آدمی تھے۔ مجھے اشارے سے بلایا اور بولے ‘‘افضل رحمن‘ نیچے یحییٰ خان کے پاس جائو اور کہو ہمارے ریجنل انجینئر ناراض ہو رہے ہیں یہ کاغذوں کی کھڑکھڑاہٹ بند کرو۔ جائو شاباش جائو۔اس پر ریجنل انجینئر اس قدر شرمندہ ہوا کہ پھر وہ تمام وقت دم سادھے بیٹھا رہا۔
ایک مرتبہ نیوی کے فنکشن میں تقریر کے بعد جب لوگ چائے وغیرہ پی رہے تھے تو کوئی مہمان یحییٰ خان کے پاس جا کر جب آٹو گراف مانگتا تو اس کو زور سے فوجی انداز میں کہتے Turn Back۔ وہ مہمان خوفزدہ ہو کر جب منہ دوسری طرف کر لیتا تو اس کی پشت پر آٹو گراف بک رکھ کر دستخط کر دیتے اور پھر زور زور سے ہنستے۔ اس دوران میں ایک خاتون نے آ کر آٹو گراف مانگا تو یحییٰ خان تھوڑا سوچ کر اس خاتون سے بولے Are you married۔ اب جو موصوف کی شہرت تھی وہ سب کو معلوم تھی؛ چنانچہ سوال سنتے ہی بے چاری کا رنگ فق ہو گیا سہمی ہوئی عورت کے منہ سے بڑی مشکل سے نکلاyes sir۔ یحییٰ خان بولے: Call your husband۔ اس بیچاری نے دوربیٹھے شوہر کو بلایا۔ جب وہ قریب آیا تو یحییٰ خان پھراسی فوجی انداز میں اس عورت کے شوہر سے بولے Turn Back۔ اس بیچارے نے بھی خوفزدہ ہو کر منہ دوسری طرف کر لیا۔ اس کے بعد اس عورت سے آٹو گراف بک لے کر اس کے شوہر کی پشت پر رکھ کر دستخط کئے اور پھر زور زور سے ہنسنے لگے۔ 
اگلے جس فوجی حکمران کو اپنی ریڈیو کی ملازمت کے دوران بھگتا وہ تھے جنرل ضیاء الحق۔ پھر مشرف دور تو کل کی بات ہے۔ ان چاروں فوجی ادوار کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی مارشل لا کی تمنا نہیں کر سکتا مگر زرداری حکومت اور اس کے بعد موجودہ سول حکومت نے عوام کا وہ بھرکس نکالا ہے کہ عوام تنگ آ کر کسی ایسے حکمران کی آرزو کرتے ہیں جو سخت گیر اور ایماندار ہو۔ عوام کی اس آرزو کو مارشل لاء کی آرزو سمجھنا بالکل غلط ہو گا بھلے وہ منہ سے بھی کہتے ہوں کہ مارشل لاء چاہیے مارشل لاء کسی کو نہیں چاہیے۔ لیکن ایوب خان جیسی حکومت تو وقت کی ضرورت ہے ۔ برسوں پہلے ایک ٹرک کی پشت پر‘ ایوب خان کی تصویر کے نیچے لکھا پڑھا تھا‘''تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ ۔اب وہ بہت سے دلوں کی آواز بن چکی ہے۔ اگر موجودہ حکومت سخت گیر اور ایماندار بن جائے تو پھر مارشل لاء کی آواز بھولے سے بھی سنائی نہیں دے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں